ٹرین میں سفر کے دوران شہزادی عابدہ سلطان ٹرین کے رکنے سے پہلے ہی ٹرین سے چھلانگ لگا دیا کرتی تھیں، تاکہ وہ سب سے پہلے پوری اور ساگ خرید سکیں، لیکن اب وہ برقع پہننے کے بعد سے خود کو قیدی سا محسوس کرنے لگی تھیں، حالانکہ وہ برقع پہن کر بھی گھڑ سواری جیسے کام بخوبی کرلیا کرتی تھیں۔ وہ اکثر برقع پہن کر چوری چھپے اصطبل سے گھوڑا نکالتیں، اس کی لگام تھام کر سوار ہوتیں اور دور نکل جاتیں۔
شہزادی کی شادی کا قصہ بھی خاصا دلچسپ ہے۔ یہ بات ہے مارچ 1930 کی، جب ان کی عمر سترہ برس تھی۔ وہ اپنی بہنوں کے ساتھ گھڑ سواری کر رہی تھیں کہ اچانک سرکار اماں وہاں پہنچیں اور شہزادی کو حکم دیا کہ وہ نکاح کے لیے تیار ہوجائیں۔ وہ پوچھتی ہی رہ گئیں کہ آخر کس کا نکاح ہے، لیکن انہیں کوئی جواب نہ ملا اور سرکار اماں اپنا حکم سناکر روانہ ہوگئیں۔ جب نکاح کی تقریب میں انہیں دلہن بنا کر لایا گیا اور مولوی صاحب نے ان سے پوچھا کہ کیا انہیں یہ نکاح قبول ہے تو انہوں نے با آوازِ بلند جواب دیا، "ہاں، مجھے قبول ہے۔” یہ آواز مولوی صاحب اور تمام لوگوں نے سنی اور ان کے اس جواب نے نہ صرف مولوی صاحب بلکہ کمرے میں بیٹھی دیگر خواتین کو بھی چونکا دیا۔ شہزادی کا نکاح ان کی دادی یعنی سرکار اماں نے ریاست کوروائی کے نواب سرور علی خان سے کرا دیا تھا۔ ان کی رخصتی تین برس بعد پانچ مارچ 1933 کو ہوئی اور اس کے ایک برس بعد 29 اپریل 1934 کو ان کے اکلوتے فرزند شہریار محمد خان پیدا ہوئے۔ عابدہ سلطان اور نواب سرور علی خان کی شادی زیادہ عرصے جاری نہ رہ سکی اور وہ اپنے بیٹے کے ساتھ بھوپال آ گئیں۔
شہزادی کے بال خوبصورت اور اتنے لمبے تھے کہ ان کی کمر کو پہنچتے تھے، لیکن ایک روز انہوں نے یہ حسین بال کٹوانے کا فیصلہ کرلیا۔ سرکار اماں نے جب ان کے کٹے ہوئے بال دیکھے تو ایک لمحے کو ساکت ہوئیں اور پھر بے ہوش ہوگئیں۔ اس وقت سے اپنی موت تک شہزادی نے ہمیشہ چھوٹے بال ہی رکھے۔ ابھی شہزادی کی عمر پندرہ برس تھی کہ انہیں تخت کا وارث قرار دیا گیا۔ اس وقت سے انہوں نے اپنے والد نواب حمید اللہ خان کے ساتھ فوجی پریڈ کا معائنہ بھی شروع کردیا اور وہ سرکاری دوروں میں بھی نواب بھوپال کے ساتھ جانے لگیں۔ جاں نشینی کے اعلان کے بعد نوابی سنبھالنے کی تربیت کے دوران انہیں ہندی زبان سے بھی روشناس کرایا گیاور اور انہیں زرعی اراضی کی پیمائش سیکھنے کے لیے پٹواریوں کے پاس بھی بھیجا گیا۔ جب شہزادی کی مصروفیات بڑھیں اور انہیں ہر جگہ آنا جانا پڑا تو انہیں نے پردہ ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے میں ان کے والد کی اجازت بھی شامل تھی۔ اس فیصلے سے سرکار اماں ابتدا میں پریشان ہوئیں، آخر کار اڑسٹھ برس کی عمر میں خود انہوں نے بھی برقع اوڑھنا چھوڑ دیا۔
دو اکتوبر انیس سو پچاس کو شہزادی عابدہ سلطان کراچی پہنچیں۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی وعدہ کردہ سرزمین، یعنی پاکستان آنے کے لیے انہوں نے نہ صرف اپنا خاندان بلکہ چولھا اور اپنی وراثت کی ہر چیز چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ شہزادی کے اکلوتے بیٹے شہریار خان کو ان کے والد نے واپس بھوپال آنے اور نوابی سنبھالنے اور اپنے حقوق کا دعویٰ کرنے کے لیے کہا تھا، کیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کا پوتا ان کا جاں نشیں بن جائے اور نہ صرف تخت سنبھالے بلکہ اپنے حصے کا ترکہ وبھی وصول کرے۔ شہریار خان نے واپس جانے سے انکار کردیا اور اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان آنے کے بعد شہریار خان کو فوجی اسکول میں تعلیم کے لیے بھیج دیا گیا، جہاں انہوں نے نشانہ بازی، پیراکی اور درختوں میں چڑھنا سکھایا گیا۔ شہریار خان جب تک بھوپال میں رہے، انہوں شکار کا شوق رہا، پھر انہوں نے سوچا کہ صرف اپنے شوق کی خاطر ان قیمتی جانوروں کی جان لینا خوف ناک بات ہے۔ انہوں نے اعلیٰ سروس کے چودھویں گروپ کو جواائن کیا اور پاکستان کے سیکریٹری خارجہ بنے۔ انہوں نے فرانس میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے بھی کام کیا اور بعد ازاں انہوں نے طویل عرصے تک پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
حسین شہید سہروردی نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران چین کے دورے کے لیے شہزادی عابدہ سلطان کو اپنے وفد میں شامل کیا۔ اپنے دورے کے دوران حسین شہید سہروردی نے چینی قیادت کو بتایا کہ شہزدی عابدہ سلطان ماہر نشانے باز خاتون ہیں اور انہوں نے تہتر شیروں کا شکار کیا ہے۔ چینی وزیر دفاع اور ان کے رفقا نے یہ بات بہت حیرت اور دلچسپی سے سنی اور شہزادی سے پوچھا کہ کیا وہ چینی فوج کی شوٹنگ رینج میں چل کر نشانے بازی کا مظاہرہ کرنا پسند کریں گی؟ اگرچہ انہوں نے پاکستان آنے کے بعد سے کبھی رائفل کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا، تاہم انہوں نے یہ چیلنج قبول کیا اور پھر شہزادی نے چینی فوج کی ٹارگٹ رینج میں پہنچ کر اسنائپر کی پوزیشن سنبھال لی۔ چونکہ وہ بھوپال میں فوجی تربیت حاصل کرچکی تھیں، لہٰذا ان کی پوزیشن سنبھالنے کا انداز کسی ماہر فوجی کی مانند تھا۔ جب انہوں نے تمام نشانے درست لگائے تو چینی وزیر دفاع اور دیگر رہنماؤں نے بہت حیرت اور خوشی کا اظہار کیا تھا۔
شہزادی عابدہ سلطان نے صدارتی انتخابات میں فوجی صدر جنرل ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی۔ اس مہم کے دوران انہوں نے عوامی زندگی کو خیرباد کہا اور گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ انہوں نے اپنا نہایت سادہ اور پر امن ٹھکانہ ملیر کو بنایا۔ انہوں نے وہاں آٹھ برس تک بجلی کے بغیر گزارے۔ یہ گھر پچاس برس تک شہزادی عابدہ سلطان کی تمام سرگرمیوں کا محور و مرکز اور گواہ رہا۔ انہیں جس طرح کھیلوں اور مہم جوئی کی لگن اور تڑپ تھی، اس پر پاکستان میں پابندی تھی۔ یہاں شکار کھیلنا اور وہ بھی کسی خاتون کا، ایک بہت بڑی اور معیوب بات سمجھی جاتی تھی، پولو کا شوق پورا کرنے کے لیے ان کے باس بڑی تعداد میں گھوڑے بھی نہیں تھے، اس لیے انہوں نے پاکستان کے مایہ ناز اور لیجنڈری کھلاری روشن خان کے ساتھ اسکواش کھیلنا شروع کردیا۔ چونکہ وہ کراچی میں پولو نہیں کھیل سکیں، اس لیے انہوں نے پولو کے متعدد میچوں میں امپائر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ یہاں کسی خاتون کا مردوں کے ساتھ کرکٹ یا ہاکی کھیلنا معیوب سمجھا جاتا تھا، لیٰذا شہزادی نے اپنی تمام تر توجہ اسکواش کھیلنے پر مرکوز کردی اور ان کا کھیل پہلے سے زیادہ نکھر کر سامنے آیا۔ اس سے قبل 1949 میں وہ بمبئی میں اسکواش کا ویمنز ٹائٹل جیت چکی تھیں۔
بھوپال میں قیام کے دوران شہزادی گھنٹوں اپنے گھر میں بنے سوئمنگ پول میں گزارا کرتی تھیں، کراچی آنے کے بعد وہ سوئمنگ کے لیے ملیر کے گرانڈ ہوٹل جایا کرتی تھیں، جو ان کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر موجود تھا۔ شہزادی عابدہ سلطان کی کراچی آمد کے کچھ ہی عرصے بعد، سکوڈا موٹر کمپنی کے نمائندے عیسیٰ جعفر نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے موٹر شو میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کریں اور جیتنے والوں کو انعامات بھی تقسیم کریں۔ شہزادی نے یہ دعوت اس شرط پر قبول کی کہ انہیں اس شو میں نئے ماڈل کی کار پر اسٹنٹ کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ پولو گراؤنڈ کراچی میں ایک بڑے مجمع کے سامنے ڈرائیونگ اسٹنٹ کے کسی پیشگی تجربے کے بغیر شہزادی نے کئی بار سکوڈا کار کو لکڑی کے ایک بڑے چبوترے کے اوپر سے گزارا اور ایسا اسٹنٹ دکھایا کہ دیکھنے والے تمام افراد مبہوت ہوکر رہ گئے۔
شہزادی عابدہ سلطان ریڈیو بھی بہت شوق سے سنتی ہیں۔ اس بات کا تذکرہ بی بی سی اردو کے معروف پیش کار اور صدا کار رضا علی عابدی نے بھی اپنی تحریروں میں کیا ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ یہ کوئی 1980ء کی دہائی کی بات ہے کہ ایک روز بی بی سی میں پاکستان کے سفارتخانے سے فون آیا کہ سفیر صاحب (شہر یار خان) کی والدہ یعنی شہزادی عابدہ سلطان آپ کے اسٹوڈیو میں آکر پروگرام شاہین کلب کی ریکارڈنگ دیکھنا چاہتی ہیں۔ بی بی سی والوں نے کہا کہ سر آنکھوں پر۔ شہزادی صاحبہ شوق سے تشریف لائیں۔ ہمیں بتایا گیا تو ہماری خوشی بھی دیکھنے کے قابل تھی۔ خوشی اس بات کی نہیں کہ سفیر کی ماں ہماری مہمان ہیں، بلکہ اس بات کی تھی کہ انہیں پروگرام میں شامل کریں گے اور بھوپال کی ولی عہد سے ان کی بچپن کی باتایں پوچھیں گے۔ طے یہ پایا کہ عابدہ سلطان صاحبہ کو کوئی اور نہیں، بلکہ سدھو بھائی انٹرویو کریں گے۔یہ سن کر سدھو بھائی کے پسینے چھوٹ گئے۔ بولے، "ارے صاحب، میں ان سے کیا پوچھوں گا؟” آخر وہ اس بات پر مطمئن ہوئے کہ ان کو سارے سوال لکھ کر دیے جائیں گے۔ اور پھر یہی ہوا۔ ریکارڈنگ کے دن مقررہ وقت پر شہزادی صاحبہ بش ہاؤس پہنچ گئیں۔ حکام نے ان کا استقبال کیا، لیکن وہ ہم لوگوں کے درمیان آتے ہی ہم جیسی ایک عام شہری بن گئیں۔ وہ شاہین کلب کی پرانع سامع تھیں اور ہم سب سے خوب واقف تھیں۔ سدھو بھائی کے سارے قصے انہیں یاد تھے اور جوں ہی سدھو بھائی نے کہا کہ ارے صاحب اس کا بھی بہت دلچسپ واقعہ ہے، وہ فوراً بولیں، ہمیں بھی سنائیے۔ اس کے بعد ان سے مزے مزے کی باتیں ہوئیں۔ سدھو بھا ئی نے پوچھا کہ کیا آپ کبھی شرارتیں بھی کرتی تھیں؟ کیا آپ کے کان کبھی کھینچے گئے؟ کبھی ڈانٹ پڑی؟ ہوم ورک خوشی خوشی کرتی تھیں یا اس کے لیے بھی ڈانٹ کھایا کرتی تھیںَ عاابدہ سلطان صاحبہ نے سب کچھ سچ سچ اگل دیا۔ بتایا کہ وہ محل می زندگی میں بھی ایک عام گھریلو لڑکی تھیں۔ چلتے ہوئے وہ ہم سب کو اگلے روز دوپہر کے کھانے پر آنے کی دعوت دے گئیں اور سدھو بھائی سے پوچھا کہ آپ کیا کھائیں گے؟ اس پر ہم سب کے ساتھ ہی بچوں کی طرح نعرہ لگایا، "حلوہ۔”
موسیقی شہزادی کا ایک اور شوق تھا، یہ شوق پورا کرنے کے لیے انہوں نے استاد ضیاء الدین سے ستار بجانا سیکھا۔ استاد ضیاء الدینشہ بعد میں پاکستان انٹر نیشنل ایئرلائنز کی آرکسٹرا اکیڈمی کے سربراہ بھی بنے۔ شہزادی کو ڈھولک اور طبلہ بجانا، اس کے ساتھ گیت گانا اور رقص کرنا بہت پسند تھا۔ ملیر میں اپنے پوتے علی کی سالگرہ کے موقع پر منعقدہ تقریب میں انہوں نے نہ صرف خود ڈھولک بجائی بلکہ ساتھ ساتھ تمام شرکاء کو بھی گانے پر مجبور کردیا۔ اس موقع پر انہوں نے ستار بھی بجایا، ان کے ساتھ ان کے صاحبزادے شہریار خان نے طبلے پر سنگت کی۔ وہ کلاسیکل موسیقی کو زیادہ پسند کرتی تھیں لیکن ہارمونیم پر وہ ہلکے پھلکے انداز کے فلمی گیت بھی بجایا کرتی تھیں۔ وہ موسیقی میں اتنی مشاق تھیں کہ کسی دھن کو سن کر لمحوں میں سمجھ جایا کرتی تھیں کہ یہ کون سے سُر میں ہے۔
شہزادی عابدہ سلطان نے پاکستان آنے کے بعد جیمخانہ کلب اور نیپیئر بیرکس میں صدر اسکندر مرزا کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلی۔ انہوں نے کراچی کے میدانوں میں مردوں کے ساتھ ہاکی بھی کھیلی۔ بیا نے کبھی خواتین کے ساتھ میچ نہیں کھیلے، کیوں کہ خواتین کے ساتھ کھیلنے میں انہیں کبھی چیلنج کا احساس نہیں ہوا۔ انہوں نے پاکستان میں بہت حوصلے کے ساتھ زندگی گزاری۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ستر برس کی عمر میں نہ صرف دارالحکومت اسلام آباد گئیں، جہاں انہوں نے کئی کرکٹ میچ کھیلے، اور چھیاسی برس کی عمر میں وہ تنہا ڈرائیو کرکے بیگم سلمیٰ احمد کے پاس ان کی صاحبزادی کی موت پر تعزیت کرنے کے لیے گئیں۔ ایک برس بعد وہ اپنی آنکھ کا موتیا کا آپریشن کرکے گلشن اقبال کے اسپتال تنہا گاڑی چلا کر گئیں اور آپریشن کے بعدچند گھنٹے آرام کیا اور پھر واپس بھی اسی طرح آئیں۔
شہزادی نے ہمیشہ بے خوف زندگی گزاری اور کبھی ملیر جیسے دور افتادہ علاقے میں رہتے ہوئے کبھی پریشان نہیں ہوئیں۔ ایک بار ایک شخص ان کے گھر کے احاطے میں داخل ہوا اور ان سے ایک گلاس پانی پلانے کی درخواست کی۔ اس کے حلیے بشرے سے شہزادی بھانپ گئیں کہ کہیں کوئی گڑ بڑ ہے۔ شہزادی نے اس شخص کا ہاتھ اس مضبوطی سے پکڑا کہ فرار نہ ہونے دیا۔ شہزادی نے اسے اس مضبوطی سے گرفت میں لیا کہ وہ بہت کوشش کے باوجود خود کو نہ چھرا سکا۔ اسی اثنا میں ملازمین دوڑتے ہوئے آگئے اور اسے باندھ دیا۔ پولیس نے آکر اسے حراست میں لے لیا۔ تفتیش کے بعد پولیس نے شہزادی کو اطلاع دی کہ وہ شخص قاتل ہے اور جیل سے سزا پانے کے بعد مفرور ہوگیا تھا۔ شہزادی عابدہ سلطان نے زندگی میں بہت کھیل کھیلے۔ ان کھیلوں میں ٹیبل ٹینس اور شطرنج بھی خوب کھیلی۔ عمر کے آخری حصے میں بھی ان کا کھیلوں کا شوق مدھم نہ پڑا۔ اس دور میں ان کے محلے کے کچھ نوجوان ان کے گھر آ جایا کرتے تھے جن کے ساتھ وہ ٹیبل ٹینس اور شطرنج کھیلا کرتی تھیں۔ بیا جی نے کسی بھی اچانک پیش آنے والے حالات میں کبھی ڈرنا نہیں سیکھا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے گھر کے برآمدے میں سویا کرتیں اور اپنے سرہانے بندوق رکھا کرتی تھیں۔
بھرپور اور بے باک زندگی گزارنے والی بیا جی یعنی شہزادی عابدہ سلطان اپنے اسی ملی والے گھر میں، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کی ساٹھ دہائیاں گزاری تھیں، گیارہ مئی دو ہزار دو کو انتقال کرگئیں۔ ان کا گھر "بھوپال ہاؤس” کے نام سے اب بھی ملیر میں موجود ہے، جہاں ملازمین اس گھر کی رکھوالی کرتے ہیں۔ قرب و جوار میں رہنے والے شہزادی عابدہ سلطان کو آج تک نہیں بھولے۔ شہزادی عابدہ سلطان بھوپال ہاؤس میں لگے آم، ناریل، کھجور، امرود اور پپیتوے کے درختوں کے پھل، اپنے احاطے میں اگائی گئی سبزیاں ہمیشہ اپنے قرب و جوار میں بسے لوگوں کے گھروں میں بھجوایا کرتی تھیں۔ آج بھی ارد گرد رہنے والے لوگ بھوپال ہاؤس آتے ہیں اور پھل اور سبزیاں بلا معاوضہ یہاں سے لے جاتے ہیں۔ بہت سی خواتین آم پکنے سے قبل کیریاں اور کچی املی (کٹارے) لینے آیا کرتی ہیں اور اپنے ہاتھوں سے توڑ کر لے جاتی ہیں۔ ان کی خود نوشت سوانح حیات 2004 میں انگریزی زبان میں Memories of a rebel Princess جبکہ 2007 میں "عابدہ سلطا: ایک انقلابی شہزادی کی خود نوشت” کے نام سے شائع ہوئی۔ اپنی زندگی کی یاد داشتوں کو انہوں نے 1980ء کی دہائی میں اپنی ڈائری کی صورت میں مرتب کرنا شروع کیا تھا۔ یہ کام وہ اپنی وفات سے ڈیڑھ ماہ قبل مکمل کرپائیں اور اس سوانح کا ظہور ان کے انتقال کے ہوا۔ اس مضمون کی تیاری کے لیے ان کی سوانح حیات، بعض ویب سائٹس، ماضی کے کچھ اردو اور کچھ انگریزی اخبارات سے مدد لی گئی ہے۔