چند روز پہلے وزیراعظم عمران خان صاحب نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا۔ یہ پیغام خان صاحب نے تحریک انصاف کے 25 سال پورے ہونے پر جاری کیا۔ اس پیغام میں خان صاحب نے اپنی تمام جدوجہد کے بارے میں عوام کو بتایا کہ پارٹی کیسے وجود میں آئی، ان کا عزم کیا تھا یعنی سب باتیں انہوں نے کہیں۔ خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ ہم نے اپنی پارٹی کا نام اسلئے تحریک انصاف رکھا ہے کہ جب ہماری حکومت ائیگی تو سب لوگوں کو انصاف ملے گا۔
خان صاحب کا مزید کہنا تھا کہ جب انصاف ہوگا تو کرپشن ختم ہوگی جب انصاف ہوگا تو قانون کی بالادستی ہوگی۔ جب قانون کی بالادستی ہوگی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کمزور اور طاقتور قانون کے سامنے ایک جیسے ہونگے۔ خان صاحب نے کہا کہ کوئی قوم وسائل کی کمی سے تباہ نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی قوم جنگ سے تباہ ہوتی ہے کیونکہ وہ قوم اس سے بھی ایک نہ ایک دن نکل جائیگی لیکن اگر ایک قوم کے حکمران کرپشن کرتے ہیں، منی لانڈرنگ کرتے ہیں تو وہ قوم تباہ ہوتی ہے۔
خان صاحب کی اس بات میں کوئی شک نہیں۔ اس کے علاوہ خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اپنی 25 سالہ جدوجہد میں بہت کچھ دیکھا۔ بہت سے لوگ ائے اور گئے، لیکن انہوں نے کھبی بھی حوصلہ نہیں ہارا اور اپنا کام جاری رکھا۔ جب وہ کسی کام کیلئے نکلتے ہیں تو اپنے پیچھے ساری کشتیاں جلا کر نکلتے ہیں۔ خان صاحب کو اپنے اپ پر بہت اعتماد تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں نہ پیسے کمانے کا کوئی شوق ہے اور نہ نام کمانے کا اور یہ بات خان صاحب کی سچ بھی ہے، پیسے اور نام انہوں نے کرکٹ کے زمانے میں کمالیے۔ اس کے ساتھ ساتھ خان صاحب نے اپنے بارے میں یہ بھی کہا کہ انہوں نے یونیورسٹی سے پولیٹکل سائنس پڑھی ہے، پھر کرکٹ کے سلسلے میں ان کا زیادہ تر وقت مغرب میں گزرا ہے تو وہ مغرب کے پولیٹکل سسٹم کو بھی بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں اور اس بات کا ذکر خان صاحب بار بار کرتے رہتے ہیں۔
خان صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے اسلام کو بھی بہت اچھی طرح اسٹڈی کیا ہے۔ ریاست مدینہ کے حوالے سے سب کچھ جانتا ہوں۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خان صاحب نے اپنے ہوم ورک کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے ہوم ورک ہونے کی باوجود خان صاحب ناکام کیوں ہیں؟ خان صاحب کے حکومت میں لوگ خوش کیوں نہیں ہیں؟
خان صاحب اس بات کا اعتراف خود کرچکےہیں کہ ان کی تیاری نہیں تھی۔ اب سمجھ میں یہ نہیں اتا کہ ایک طرف کہتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اور دوسری طرف کہتے ہیں ہماری تیاری نہیں تھی کہ حکومت کس طرح چلانا ہے۔ اپ لوگوں کو یاد ہوگا جب پاکستان تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو اسد عمر صاحب اس وقت کے وزیر خزانہ پر کیسے برہم ہوتے تھے۔ ہم جیسے نالائق بھی یہ سمجتھے تھے کہ واقعی یہ ایک بہت ہی قابل انسان ہیں لیکن جب کپتان کی حکومت ائی تو اسد عمر صاحب اوپننگ کھیلنے کیلے جیسے ہی گراونڈ میں اترے تو پہلے ہی اوور میں اوٹ ہوئے اور اب بھی کوئی منسٹری میں یا ادارے میں کوئی مشکل اتی ہیں تو مسلہ حل کرنے کہ بجائے خان صاحب وزیر تبدیل کرتے ہیں۔
جب سے خان صاحب حکومت میں ائے ہیں تو کئی بار خان صاحب نے کابینہ میں ردوبدل کا راستہ اختیار کرکیا ہے۔ اپ لوگوں کو یاد ہوگا الیکشن سے پہلے خان صاحب نوجوانوں پر ناز کرتے تھے کہ میں نوجوانوں کیلے یہ کرونگا وہ کرونگا یہ نوجوان قیمتی اثاثہ ہیں ہمارے ملک کا لیکن جب سے حکومت میں ائے ہیں تو نوجوان بہت مایوس ہوچکے ہیں۔ نہ کوئی نوکری نہ کوئی روزگار اور عمران خان صاحب نے ان نوجوانوں کو لیپ ٹاپ جیسے اسکیم سے بھی محروم کردیا۔ بجائے یہ کہ اپ نئے سکیم شروع کرتے کہ نوجوانوں سے ووٹ لیے ہیں۔ اگر ایک مڈل کلاس اسٹوڈنٹ جو یونیورسٹی میں پڑھتا ہے، وہ اپنی فیس جمع کرے یا ہاسٹل فیس جمع کرے۔ اور یا اس مہنگائی میں اپنے لیے لیپ ٹاپ خریدے۔ اپ کو پتہ ہے کہ ایک یونیورسٹی میں پڑھنے والے اسٹوڈنٹ کیلے لیپ ٹاپ کا ہونا کتنا لازمی ہے۔ خان صاحب کو اپنے اپ پر بہت فخر ہے کہ انہوں نے 25 سال جدوجہد کی ہے لیکن خان صاحب کو یہ پتہ بھی ہونا چاہیے کہ حکومت چلانے میں اور پارٹی چلانے میں زمین اور اسمان کا فرق ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپ نے 25 سال جدوجہد کی ہے تب تو اپ اس مقام پر ہیں ملک کے وزیراعظم ہیں۔ اب یہاں بھی ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپ نے 25 سال جدوجہد کی تو پھر ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اپ کے ساتھ پہلے دن سے ہیں تو اپ نے اپنے کابینہ میں وہ لوگ شامل کیوں نہیں کیے۔ بلکہ اور تو اور اپ نے مشرف کے دور کے لوگ یا پیپلز پارٹی کے دور کے لوگوں کو اپنے کابینہ میں شامل کیا وہ تو چور ہیں۔ بقول عمران خان صاحب اپکے وہ کیسے اپ کے نظریے کے حامی ہوسکتے ہیں ۔ خان صاحب کو اور تمام پارٹی رہنماوں اور ورکرز کو 25 یوم تاسیس بہت بہت مبارک ہو۔