بی بی باگڑی، شکست کی آخری سرحد

سندھ کی دھرتی پر مسلمانوں‌ کے ساتھ ساتھ غیرمسلم بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں. ان غیرمسلموں میں‌ عیسائی اور ہندو بھی شامل ہیں۔ یہاں بسنے والوں میں دراوڑ نسل سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم باگڑیوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے جو سندھ میں لاکھوں کی تعداد میں رہتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر خانہ بدوش ہوتے ہیں اس لئے ان کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں۔ کبھی کدھر تو کبھی کدھر۔

باگڑی نسل کی عورتیں سندھ کے اکثر چھوٹے چھوٹے شہروں میں کٹورے لئے بھیک مانگتی نظر آتی ہیں یا پھر دیہات میں گھر گھر جاکر چوڑیاں، کپڑے، میک اپ کا سامان یا دیگر چھوٹی چھوٹی اشیا بیچ کر گذارہ کرتی ہیں۔ باگڑی مرد شہروں میں ٹھیلے لگا کر پھل سبزیاں فروخت کرتے نظر آتے ہیں یا پھر دیہات میں کاشت کاری کرتے ہیں۔ گویا باگڑی نسل کے ان خانہ بدوشوں کی زندگی میں تعلیم، اسکول، سرکاری ملازمت اور پڑھے لکھے لوگوں کی باتوں کا عمل دخل کم ہی رہتا ہے۔ عام طور کم ذات تصور کیے جانے والے ٹھکرائے ہوئے ان غریب باگڑیوں کی نوجوان لڑکیوں کو کئی پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے۔ کسی غریب کسان باگڑی کی نوجوان بیٹی خوبصورت ہو تو وہ ہر وقت وڈیروں کی شکاری نگاہوں میں رہتی ہے یا پھر ہوس کا نشانہ بنتی ہے۔ چھوٹے شہروں میں بھکاری باگڑی عورتیں بھی مردانہ سماج کے بھیڑیوں کا نشانہ بنتی رہتی ہیں۔

باگڑی نسل سے تعلق رکھنے والی ایک بی بی باگڑی بھی ہے جو قمبر شہر میں کئی سال سے باگڑی بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے ایک اسکول چلا رہی ہیں۔ گویا بی بی باگڑی نے روائتی خاندانی طریقوں سے بغاوت کرتے ہوئے اپنی زندگی کو دو چار نہیں بلکہ کئی خطرات میں ڈال دیا تھا، کیونکہ بی بی باگڑی پڑھی لکھی ہے، ٹیچر ہے، با شعور ہے اور سماجی کارکن بھی ہے۔ شاید اسی لئے اذیتوں سے دو چار ہے۔ شاید ایسے کرداروں کے لئے ہی شاہ عبداللطیف بھٹائی نے کہا تھا کہ :

اے اللہ مجھے سیانی مت بنا، سیانیاں (عقل مند) دکھ دیکھتی ہیں۔

سندھ کا علاقہ قمبر آج بھی چانڈیو قبیلے کے سرداروں کی جاگیر تصور کیا جا تا ہے۔ یہ پرانے چانڈکا یعنی موجودہ لاڑکانہ کا ماضی میں حصہ رہا ہے۔ چانڈکا جاگیر انگریزوں نے نواب غیبی خان چانڈیو کو عطا کی تھی۔

سندھ میں ایک زمانے میں یہ کہاوت مشہور تھی کہ تم کون سے غیبی خان ہو۔ نواب غیبی خان کی اولاد آج بھی قمبر کے سردار زادے ہیں۔ لیکن قمبر کی شناخت صرف نواب اور سردار ہی نہیں بلکہ قمبر سے سندھ کے کئی معروف کردار، ادیب۔ دانشور۔ ڈاکٹر۔ سیاسی رہنما۔ صحافی قمبر سے نکل کر دنیا بھر میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اور اسی چانڈکا جاگیر کے سرداروں سے ایک زمانے میں معروف کسان رہنما کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے بھی ٹکر لی تھی جب انہوں‌ نے نواب سلطان چانڈیو کے مقابلے میں الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ بعد میں 1988 کے الیکشن میں نواب سلطان چانڈیو اپنے ہی بیٹے پیپلز پارٹی کے نواب زادہ شبیر چانڈیو سے شکست کھا گئے تھے۔ اسی قمبر میں باگڑی نسل کی بی بی باگڑی اپنا اسکول چلا رہی ہیں اور بی بی باگڑی کو نواب زادوں کی بھی حمایت حاصل ہے، پھر بھی بی بی باگڑی نے کچھ اوباش وڈیروں سے تنگ ہوکر اپنا اسکول بند کرنے کا اعلان کردیا ہے اور خانہ بدوش باگڑیوں کے لئے کھلنے والا اسکول بند ہونے کا اعلان سن کر سندھ کے ذی شعور افراد میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

 

دو روز قبل سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بی بی باگڑی نے ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ میں اب ہمت ہار چکی ہوں اور وقت کے رہزنوں کے ہاتھوں اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا اسکول، ووکیشنل سینٹر اور دیگر فلاحی ادارے بند کرنے کا اعلان کرتی ہوں۔ بی بی باگڑی کے بقول ایک ماہ کے اندر تمام طلبہ اور طالبات کو اسکول سرٹیفکیٹ دے کر فرنیچر اور اسکول کی زیر تعمیر عمارت کو امانت کے طور پر عدالت کے حوالے کردوں گی کیونکہ اب مجھ میں مزید ہمت نہیں کہ لڑ سکوں۔ مجرموں، شرابیوں، جواریوں اور شیطانوں سے مزید مقابلہ نہیں کر سکتی۔ میں یہ سب کچھ غم، ملال اور شکست زدہ ہوکر لکھ رہی ہوں کیونکہ مجھے اپنی زندگی سے زیادہ معصوم بچیوں کی زندگی کا خطرہ ہے۔ مزید خطرات مول نہیں سکتی۔

بی بی باگڑی کی اس پوسٹ پر سندھ کے با شعور افراد میں تشویش پائی جاتی ہے۔ وائس آف سندھ کی جانب سے بی بی باگڑی کا موقف جاننے کے لئے ان کے فون نمبر پر کئی بار رابطے کی کوشش کی گئی۔ البتہ کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ سماجی رہنما ڈاکٹر برکت نوناری بتاتے ہیں کہ بی بی باگڑی نے بہت بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غریب خاندانوں کے لئے اسکول کھولا مگر بی بی باگڑی کے بعض وڈیرے مسلسل تنگ کر رہے ہیں۔ سردارزادوں کے پاس ایک بار جرگہ بھی ہوا تھا لیکن ہوس کے پجاری مسلسل بی بی باگڑی کو ہراساں کر رہے ہیں لیکن بی بی باگڑی کو اپنا اسکول بند نہیں کرنا چاہئے۔ ادھر جب غریب بچوں تک یہ بات پہنچی کہ ان کا اسکول بند ہونے والا ہے تو بچوں نے اسکول کی بندش کے خلاف احتجاج شروع کردیا ہے۔ پورے قصے میں حیرت کی بات یہ ہے کہ ضلع قمبر کی پولیس اور ضلعی انتظامیہ مکمل خاموش ہے۔

ایک خاتون سماجی رضاکار اس حد تک مایوس ہے کہ اسکول بند کرنے کا اعلان کر رہی لیکن پولیس اور انتظامیہ نے اس کی کوئی خبر گیری بھی نہیں کی کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ بی بی باگڑی ایک علامت ہے جو جاگیردارنہ سماج میں شکست کی آخری سرحد ہر کھڑی ہے۔ جسے حوصلے اور مدد کی ضرورت ہے تاکہ وہ غریب بچوں کے لئے علم کی شمعیں ہمیشہ روشن رکھ سکے۔

Bibi Bagri an educated non muslim womenEducation's defeat by the feudal systemr