سندھ میں تبدیلی مگر کس نسل کی ؟

عاجز جمالی

جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو ابھی دو برس ہی مکمل ہوئے تھے کہ ان کی اپنی نگرانی میں سنہ 2002 کو عام انتخابات ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں تشکیل دینے کے لئے جنرل صاحب اور اس کے حامیوں کو مشکل صورتحال کا سامنا تھا۔

سندھ میں پیپلز پارٹی سنگل میجارٹی رکھنے والی پارٹی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے اتحادیوں میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل مل کر بھی حکومت نہیں بنا پا رہی تھیں۔ جبکہ متحدہ مجلس عمل کے چار ارکان بھی سندھ میں حکومت سازی کے عمل سے دور تھے۔ وفاق میں میر ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم بنانے کے لئے جس طرح پیپلز پارٹی پیٹریات بنا کر کنگز پارٹی کو جس طرح جیالوں کا بلیدان دیا گیا وہ ہی فارمولہ پھر صوبوں پر لاگو کیا گیا۔

دسمبر کی ایک شام کو مسلم لیگ (ق) کے رہنما حلیم عادل شیخ نے دعوت دی کہ سردار علی محمد مہر کی رہائش گاہ پر رات کے کھانے کا اہتمام ہے۔ حکومت سازی کا مرحلہ ہے اس لئے اہم پردیسی پرندے ( غیر مسلم لیگی ) بھی اس دعوت میں شریک ہوں گے۔ یہ اس دن کی شاید سب سے بڑی خبر تھی جب ہم نے علی محمد مہر کے عشائیے میں پیپلز پارٹی کے چار نو منتخب اراکین سندھ اسمبلی کو دیکھا اور ایم ایم اے کی خاتون رکن بھی بعد میں وہاں پہنچ چکی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے ارکان میں منظور پہنور، محبوب بجارانی، نصیر محمد کھوسو اور عبدالرزاق مہر شریک تھے۔ ہمیں بات تو سمجھ میں آ رہی تھی کیونکہ ہم نے اسی طرح کئی حکومتوں کو رات کے کھانوں پر بنتے دیکھا۔ اسی دعوت میں مسلم لیگ فنکشنل اور ایم کیو ایم کے نو منتخب بعض ارکان بھی شریک تھے۔ ہم کچھ صحافی دوستوں نے میر نصیر کھوسو اور میر منظور پہنور سے جاکر بات کی کہ “آپ تو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے پھر اس دعوت میں کیسے؟” دونوں فرمانے لگے، "ہم تو ذاتی دوستی کی وجہ سے آئے ہیں۔ ہم بالکل پیپلز پارٹی سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ مگر دو روز بعد ہونے والے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں تمام صورتحال واضح ہوگئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے دس کے لگ بھگ ارکان “ پیٹریاٹ” بن چکے تھے اور انہوں نے مسلم لیگ ق کے امیدوار سردار علی گوہر کو ووٹ دے کر وزیر اعلی بننے میں ہاتھ بٹایا۔ منظور پہنور اور میر نصیر بعد میں وزیر بنے تھے۔ اور اس طرح مسلم لیگ (ق) مسلم لیگ فنکشنل، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سے وفاداریاں بدلنے والوں کی مشترکہ صوبائی حکومت بن چکی تھی۔ اور پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کو اپوزیشن بینچز نصیب ہوئے۔

گذشتہ روز وفاقی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی سندھ میں کوئی غیر آئینی تبدیلی نہیں کرے گی بلکہ سندھ کے عوام چونکہ پیپلز پارٹی سے خائف ہیں اس لئے 2023 میں ہونے والے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم کرنے کے لئے ہم مختلف سیاسی لوگوں سے مل رہے ہیں جو کہ ہمارا حق ہے۔ اگر ہم لوگوں کو پیپلز پارٹی میں شامل کر رہے ہیں تو یہ بھی ہمارا آئینی و سیاسی حق ہے۔ سابق وزیر اعلی ممتاز بھٹو کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے امیر بخش بھٹو سے تعزیت کرنے کے بعد مخدوم شاہ محمود قریشی میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کی سیاسی باتوں سے شاید کسی کو اختلاف نہیں ہوگا۔ الیکشن سے قبل سندھ میں پی ٹی آئی کو مضبوط کرکے الیکشن جیت کر صوبائی حکومت بنانا کوئی غیر آئینی قدم نہیں۔

کیا سندھ حکومت تبدیل ہو رہی ہے؟

سندھ حکومت کی تبدیلی کا سوال تو تب سے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے جب سے موجودہ صوبائی حکومت بنی۔ تین سالہ حکومت جب سے بنی ہے تب سے تبدیلی کا سوال اس حکومت کے ساتھ لاگو ہیں۔ آج کل پھر سے طرح طرح کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ کچھ دن سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان عنقریب سندھ کا دورہ کریں گے اور صوبائی حکومت کو “سخت وقت“ دیا جائے گا۔ دو روز قبل سندھ کے سابق وزیر اعلی ارباب غلام رحیم کو وزیر اعظم عمران خان کا سندھ کے معاملات کے متعلق معاون خصوصی مقرر کیا گیا۔ کیبنیٹ ڈویژن کے نوٹیفکیشن کے مطابق وہ “سندھ افیئرز” کے معاون ہوں اور “اعزازی” معاون ہوں گے۔ اس فیصلے کے بعد یہ تاثر قائم ہو رہا ہے کہ شاید سندھ حکومت کے خلاف کوئی بڑا فیصلہ ہونے والا ہے ممکن ہے کہ یا تاثر غلط ہو، لیکن یہ تاثر بھی خود وفاقی وزرا اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے پیدا کیا ہے۔ وزیر اعظم کے قریبی دوست اور گورنر سندھ عمران اسماعیل گذشتہ ماہ سے سندھ میں مختلف جماعتوں کے الیکٹیبلز سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ جن میں ذوالفقار مرزا۔ علی گوہر مہر۔ عرفان اللہ مروت۔ امیر بخش بھٹو۔ اور دیگر سیاسی لوگ شامل ہیں۔ ان تمام افراد سے ملاقاتوں کو بھی تجزیہ نگار سندھ میں متوقع تبدیلی سے جوڑ رہے ہیں حالانکہ یہ سب ہی لوگ پہلے سے ہی پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں اور سندھ حکومت کے مخالف ہیں۔ کچھ لوگ جی ڈی اے کی شکل میں وفاقی حکومت کے اتحادی ہیں لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی پیشکش کی گئی ہے۔ جس طرح ارباب غلام رحیم بھی جی ڈی اے سے پی ٹی آئی میں گئے ہیں اسی طرح شاید دیگر بھی پی ٹی آئی کا حصہ بن جائیں اور جی ڈی اے کے تمام “الیکٹیبلز” کا پی ٹی آئی میں جانے بعد مسلم لیگ فنکشنل یعنی پیر پگارا کی کیا حکمت عملی ہوگی وہ سب سے اہم سوال ہوگا۔ ذرائع کہتے ہیں کہ حال ہی میں مخدوم شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین نے پیر پگارا سے ان کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کی تو دو الگ الگ سیاسی دھارائوں کے تناظر میں بات چیت ہوئی ہے۔ سندھ میں پیر پگارا وفاقی حکومت کے اہم اتحادی ہیں اور کسی بھی قسم کی سیاسی تبدیلی کے لئے ان کی رضا مندی ہی شاید پی ٹی آئی کے لئے سُود مند ہو۔ سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف قوتوں میں سندھی قوم پرست بھی اہم قوت ہیں۔ ارباب غلام رحیم نے وزیر اعظم کا معاون بنتے ہی سب سے پہلے قوم پرستوں کی ایکشن کمیٹی کے رہنما اور سابق ڈپٹی اسپیکر جلال محمود شاہ سے رابطہ کیا ہے امکان ہے کہ ارباب غلام رحیم جلال شاہ کے علاوہ دیگر قوم پرست رہنمائوں سے رابطے کریں گے ان رابطوں کا اینجنڈا تو ملاقاتوں کے بعد منظر عام پر آئے گا لیکن ایک بات تو سمجھ آ رہی ہے کہ پی ٹی آئی سندھ میں بہرحال تبدیلی چاہ رہی لیکن وہ آج بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ وہ تبدیلی کس نسل کی ہوگی ؟

سندھ میں تبدیلی آئینی ہوگی یا غیر آئینی؟

اس سوال کا پیچھا کیا جائے تو آئینی طریقہ ایک ہی ہے کہ سندھ اسمبلی میں اتنے اراکین لائے جائیں جتنی تعداد چاہئے جو کہ فی الحال ایک مشکل کھیل ہے بات دو چار کی نہیں ہے بیس پچیس کا معاملہ ہے۔ دو چار کا جب معاملہ ہوتا ہے تو مال بھی چلتا ہے اور دھونس بھی کام دکھاتا ہے لیکن بیس پچیس کے لئے یہ فارمولہ شاید کار آمد نہ ہوگا۔ دوسرے جن آپشن کی بات ہوتی ہے ان میں گورنر راج۔ وفاقی کنٹرول وغیرہ وغیرہ نا صرف غیر آئینی آپشن ہیں بلکہ اس قسم کا کوئی بھی فیصلہ خود وفاقی حکومت کے لئے مسائل پیدا کرے گا۔ یقیناً عمران خان کے خیرخواہ انہیں اس قسم کے فیصلے سے روکیں گے؟

ایک دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ کیا واقعی طاقت ور حلقے سندھ میں پیپلز پارٹی سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں ؟ سیاسی حالات اور ملکی منظر نامہ اس کی نفی کر رہے ہیں۔ کیونکہ اس طرح اقتدار کی کشتی کا توازن بگڑنے کا خدشہ موجود ہے۔ تبدیلی کے خواہش مند وقت سے قبل الیکشن کا سہانا سپنا بھی تلاش کر رہے ہیں یہ بات خود پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی گذشتہ روز وزیر اعلی ہائوس میں سندھ کے منتخب نمائندگان کو خطاب کرتے ہوئے کہی ہے اگر یہ بات درست ہے تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کیا نئے انتخابات کے لئے پریکٹس شروع ہوگیا ہے۔ پھر مخدوم شاہ محمود قریشی کی بات درست ہے پھر ارباب غلام رحیم کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے۔ ارباب غلام رحیم جو کچھ ہی عرصہ پی ٹی آئی حکومت سے مایوس نظر آرہے تھے پھر وہ پی ٹی آئی میں شامل بھی ہوگئے اور معاون خصوصی بھی بن گئے۔ سندھ میں صرف ارباب غلام رحیم ہی نہیں دیگر بھی کئی لوگ مایوس ہیں جو ابھی تک پی ٹی آئی کی صفوں میں موجود یا پھر اتحادی ہیں اس کے باوجود ان کے بیانات سے سندھ میں تبدیلی کا “ آسرا “ جھلک “ رہا ہے یقیناً وہ با خبر لوگ ہوں گےانہیں سندھ میں کہیں نہ کہیں بدلتے حالات نظر آ رہے ہوں گے یا اپنے حالات بدلنے کی خواہش انہیں اس طرح کے بیانات دلوانے کے لئے آمادہ کرتی ہوگی لیکن ملک کا سیاسی منظر نامہ کچھ اور کہہ رہا ہے۔

سندھ میں تبدیلی چاہنے والوں کا مضبوط دلیل یہ ہے کہ صوبے میں پیپلز پارٹی حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ صوبے میں تیرہ سالہ حکومتی کارکردگی پر تنقید کافی حد تک درست ہے لیکن پیپلز پارٹی کے متبادل کے طور پر سندھ کے عوام کیا پی ٹی آئی کو قبول کریں گے ؟ کیا سندھ میں پی ٹی آئی کی کارکردگی اتنی اچھی رہی ہے کہ سندھ کے عوام اس کو قبول کریں۔ کم از کم تین سالہ کارکردگی نا سندھ دوست رہی نا عوام دوست رہی تو پھر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں فرق بتانے کے لئے کون فارمولہ ہے جو سندھ کے عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

Political changes in Sindh