لاہور: ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ریپ ہورہے ہیں اشتہاری گھوم رہے ہیں، امن و امان پولیس نے تباہ کردیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ قاسم خان نے متروکہ وقف املاک بورڈ کی زمین پر پولیس قبضے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
متروکہ وقف املاک بورڈ نے جواب جمع کراتے ہوئے بتایا کہ 2003 میں پولیس سے قبضہ چھوڑنے کا معاہدہ ہوا، لیکن اس نے اب تک قبضہ نہیں دیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ قاسم خان نے ریمارکس دیے کہ پولیس والے اس ملک میں قبضہ گروپ کا کام کررہے ہیں، اگر پولیس قبضہ گروپ بن جائے گی تو کوئی پرسان حال نہیں، آئی جی پنجاب حلف نامہ جمع کرائیں۔
انسپکٹر جنرل پنجاب عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ہم نے آج تک کبھی انہیں قبضہ نہیں دیا، وفاقی یا صوبائی حکومت کی زمین کو ہم ٹرانسفر کرنے کے مجاز نہیں، ایک سب انسپکٹر اس کام کا مجاز نہیں۔
عدالت نے آئی جی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے 24 گھنٹے میں 72 کنال زمین فوری واپس کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا کہ اسپیشل برانچ والے درخواست گزاروں کو تنگ کررہے ہیں، سڑکیں آپ سے سنبھالی نہیں جاتیں، ریپ ہورہے ہیں، اشتہاری گھوم رہے ہیں، اس ملک کا کیا بنے گا، امن و امان پولیس نے تباہ کردیا، آپ کے 30 فیصد افسر مافیا کے ساتھ مل کر پلاٹوں کا کام کررہے ہیں اور اب پولیس محکمے نے بھی یہ کام شروع کردیا، اس ملک میں پولیس کی اندھیر نگری ہے۔
آئی جی نے کہا کہ یہ وفاقی حکومت کی نہیں بلکہ ٹرسٹ کی زمین ہے۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ مجھے یہ بتائیں کہ پولیس نے قبضہ کس طرح کیا ہے، میں وردیاں شردیاں اتروا کر بھیجوں گا۔
عدالت نے اس کیس کو آئی جی پنجاب تعیناتی کیس کے ساتھ منسلک کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست گزار وکیل سے کہا کہ شکر کریں، پولیس نے آپ کو خفیہ جیل میں نہیں ڈالا، عابد ملہی ان سے پکڑا نہیں جاتا، جب پکڑا جاتا ہے تو پچاس لاکھ انعام کا اعلان کردیتے ہیں، یہ حکومت تو پولیس کی آلہ کار بن سکتی ہے عدالتیں نہیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت 3 نومبر تک ملتوی کردی۔