جنرل اسمبلی سے کشمیر، افغانستان اور اسلاموفوبیا پر مدلل خطاب
نیویارک: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان، بھارت کی ایک اور جنگ روکیں، بھارتی جدید جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور عدم استحکام پیدا کرنے والی روایتی صلاحیتوں کا حصول ڈیٹرنس کو بے معنی کرسکتا ہے، عالمی برادری طالبان کے ساتھ بات چیت کرے، افغانستان کی سرزمین بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق دنیا کا رویہ مساویانہ نہیں، شہریت کے امتیازی قوانین کا مقصد مسلمانوں کو بھارت سے نکالنا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا کو کووڈ 19 معاشی بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرے کی وجہ سے درپیش خطرات جیسے تین طرفہ چیلنج کا سامنا ہے، اللہ کے فضل و کرم سے اب تک پاکستان کووڈ وبا کو قابو میں رکھنے میں کامیاب رہا ہے، تین طرفہ چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، جس میں پہلے نمبر پرویکسین کی یکساں دستیابی یعنی ہر جگہ، ہر شخص کو کووڈ سے بچاؤ کی ویکسین لگنی چاہیے اور جتنا جلدی ممکن ہو لگنی چاہیے، دوسرا ترقی پذیر ملکوں کو مناسب فنانسنگ کی سہولت لازماً ملنی چاہیے، جسے قرضوں کی جامع ترتیبِ نو، او ڈی اے کا حجم بڑھانے اورغیر استعمال شدہ ایس ڈی آر کی دوبارہ تقسیم اور ایس ڈی آرز کا بڑا حصہ ترقی پذیر ملکوں کو الاٹ کرکے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے فنانسنگ کی سہولت فراہم کرکے یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا، ہمیں سرمایہ کاری کی واضح منصوبہ بندیوں کو اختیار کرنا چاہیے، میں تجویز دوں گا کہ سیکریٹری جنرل 2025 میں پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے لیے سربراہ اجلاس بلائیں جس میں پائیدار ترقی کے اہداف کا دوبارہ جائزہ لیا جائے اور ان پر عمل درآمد کے لیے کام کی رفتار تیز کی جائے۔ انہوں نے کہا ترقی پذیر ممالک کی بدعنوان حاکم اشرافیہ کی لوٹ مار کی وجہ سے امیر اور غریب ملکوں کے درمیان فرق خطرناک رفتار سے بڑھ رہا ہے، سیکریٹری جنرل کے اعلیٰ سطح کے پینل برائے مالیاتی احتساب، شفافیت اور مکمل دیانت داری جسے فیکٹ آئی کہا جاتا ہے، نے حساب لگایا ہے کہ سات ہزار ارب ڈالر کے خطیر چوری شدہ اثاثے محفوظ مالیاتی پناہ گاہوں میں چھپائے گئے ہیں، اس منظم چوری اور اثاثوں کی غیر قانونی منتقلی کے ترقی پذیر ملکوں پر دوررس منفی اثرات پڑتے ہیں، غربت کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، بطور خاص جب منی لانڈرنگ کے ذریعے مال ملک سے باہر لے جایا جاتا ہے، اس کے نتیجے میں ان ملکوں کی کرنسی پر دباؤ پڑتا ہے اور اس کی قدر میں کمی ہوتی ہے، فیکٹ آئی پینل نے اندازہ لگایا ہے کہ ہر سال ایک ہزار ارب ڈالر ترقی پذیر ملکوں سے نکال لیے جاتے ہیں، نتیجتاً تلاش معاش کے لیے امیر ملکوں کی جانب ہجرت کرنے والوں کا ایک بہت بڑا سیلاب آئے گا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جو کچھ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے ساتھ کیا، وہی کچھ ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ ان کی بدعنوان اشرافیہ کررہی ہے، میں دیکھ سکتا ہوں کہ مستقبل قریب میں ایک وقت آئے گا جب امیر ملکوں کو ان غریب ملکوں سے معاش کے لیے بڑی تعداد میں ہجرت کرنے والوں کو روکنے کی خاطر دیواریں تعمیر کرنا پڑ جائیں گی، مجھے خوف ہے کہ غربت کے سمندر میں چند امیر جزیرے ویسے ہی ایک عالمی آفت کی شکل اختیار کرلیں گے، جنرل اسمبلی کو ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ پریشانی اور اخلاقی تضادات کا باعث بننے والی اس صورتِ حال سے عہدہ برآ ہوا جاسکے، غیر قانونی دولت کے لیے موجود ان جنتوں کا نام لے کر انہیں شرمندہ کرنے کی ضرورت ہے اور ایک جامع قانونی فریم ورک تشکیل دیا جائے جس سے دولت کی غیر قانونی اڑان کو روکا اور اس دولت کو لوٹایا جائے۔
وزیراعظم عمران خان کا اسلامو فوبیا کے حوالے سے کہنا تھا کہ اسلامو فوبیا ایک اور ایسا خوف ناک رجحان ہے جس کا ہم سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہے، میں سیکریٹری جنرل سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اسلاموفوبیا کا تدارک کرنے کے لیے بین الاقوامی مکالمہ شروع کروائیں، اس وقت اسلاموفوبیا کی سب سے خوف ناک اور بھیانک شکل بھارت میں پنجے گاڑے ہوئے ہے، فاشسٹ آر ایس ایس، بی جے پی حکومت کی جانب سے پھیلائے گئے نفرت سے بھرے ہندوتوا نظریات نے بھارت میں بسنے والے 20 کروڑ مسلمانوں کے خلاف خوف اور تشدد کی ایک لہر جاری کر رکھی ہے، گاؤ ماتا کے جیالوں نے جتھوں کی صورت مسلمانوں کو قتل کرنا جاری رکھا ہوا ہے، وقفے وقفے سے منظم قتلِ عام کا سلسلہ جاری ہے، شہریت کے امتیازی قوانین جن کا مقصد بھارت کو مسلمانوں سے پاک کرنا ہے اور بھارت بھر میں مساجد کو شہید کرنے کی مہم اور اس کی اسلامی تاریخ اور ورثے کو مٹانے کی کوششیں جاری ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے 5 اگست 2019 سے مسلسل یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات شروع کر رکھے ہیں، اس نے نو لاکھ قابض فوج کے ذریعے خوف کی ایک لہر جاری کر رکھی ہے، میڈیا اور انٹرنیٹ پر پابندی لگا رکھی ہے، 13 ہزار کشمیریوں کو اغوا کر رکھا ہے جن میں سے سیکڑوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہوا ہے، اس نے جعلی پولیس مقابلوں میں سیکڑوں کشمیریوں کو قتل کیا ہے، اس نے اجتماعی سزائیں دینے کی روش اپنائی ہوئی ہے، جس میں پورے پورے گاؤں اور مضافاتی علاقے تباہ کردیے جاتے ہیں، حال ہی میں ہم نے اس حوالے سے ایک تفصیلی ڈوزیئز جاری کیا ہے، بھارتی کارروائیاں اقوامِ متحدہ کی جموں و کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں، یہ بدقسمتی ہے کہ دنیا کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے رویہ مساویانہ نہیں اور اکثر بڑی طاقتوں کو علاقائی سیاسی معاملات اور کاروباری مفادات مجبور کردیتے ہیں کہ وہ اپنے دوست ممالک کی خلاف ورزیوں سے صرفِ نظر کرجائیں، ایسے دہرے معیارات بھارت کے حوالے سے سب سے نمایاں ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ بھارتی ظلم و جبر کی حالیہ مثال عظیم کشمیری رہنما سید علی شاہ گیلانی کے جسد خاکی کو ان کے خاندان سے زبردستی چھیننا ہے، ان کی خواہش اور اسلامی روایات کے مطابق باقاعدہ نماز جنازہ اور تدفین نہیں ہونے دی گئی، میں اس جنرل اسمبلی سے کہتا ہوں کہ وہ سید علی شاہ گیلانی کے جسد خاکی کی باقاعدہ اسلامی روایات کے مطابق شہدا کے قبرستان میں تدفین کا مطالبہ کرے۔
عمران خان نے کہا پاکستان اپنے دیگر ہمسایوں کی طرح بھارت کے ساتھ بھی امن کا خواہش مند ہے، گزشتہ فروری میں ہم نے کنٹرول لائن پر جنگ بندی کے 2003 کے معاہدے کا اعادہ کیا۔ امید یہ تھی کہ اس سے دہلی میں حکمت عملی پر دوبارہ غوروخوض ہوگا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بی جے پی کی حکومت نے کشمیر میں مظالم کی انتہا کردی، اب یہ بھارت کی ذمے داری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بنائے، یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ کو روکا جائے۔ بھارت کی فوجی تیاری، جدید جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور عدم استحکام پیدا کرنے والی روایتی صلاحیتوں کا حصول دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ ڈیٹرنس کو بے معنی کرسکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا امریکا اور یورپ میں بعض سیاست دان پاکستان پر الزام تراشی کرتے رہے ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے میں چاہتا ہوں کہ سب جان لیں کہ جس ملک نے افغانستان کے علاوہ سب سے زیادہ نقصان اٹھایا وہ پاکستان ہے جب ہم 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شامل ہوئے تھے، 80 ہزار پاکستانی مارے گئے اور ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، پاکستان میں 35 لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور یہ کیوں ہوا؟ 80 کی دہائی میں افغانستان پر غیر ملکی قبضے کے خلاف جنگ میں پاکستان صف اول میں تھا۔ پاکستان اور امریکا نے افغانستان کی آزادی کے لیے مجاہدین کو تربیت دی، دنیا بھر سے مجاہدین گروپوں، اٖفغان مجاہدین اور القاعدہ کو ہیرو سمجھا جاتا تھا، صدر رونالڈ ریگن نے 1983 میں ان کو وائٹ ہاؤس میں دعوت دی، ایک نیوز رپورٹ کے مطابق انہوں نے ان کا موازنہ امریکا کے بانیوں کے ساتھ کیا۔
انہوں نے کہا کہ 1989 میں سوویت یونین افغانستان سے چلا گیا اور اسی طرح امریکی بھی افغانستان کو چھوڑ کر گئے، پاکستان کو 50 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا گیا، ہمارے ہاں فرقہ پرستی پھیلانے والے عسکری گروپس آگئے جن کا پہلے کوئی وجود نہ تھا، بدترین صورت حال اُس وقت پیدا ہوئی جب ایک سال بعد امریکا نے پاکستان پر پابندیاں عائد کردیں، اس کے بعد ایک بار پھر امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑ گئی، کیونکہ اب امریکا کی زیر قیادت اتحاد افغانستان پر حملہ کرنے جارہا تھا اور پاکستان کی طرف سے لاجسٹک سپورٹ کے بغیر ایسا ممکن نہیں تھا، اس کے بعد وہی مجاہدین جن کو ہم نے غیر ملکی قبضے کے خلاف جنگ کے لیے تیار کیا تھا وہ ہمارے مخالف ہوگئے، ہمیں شریک کار گردانا گیا انہوں نے ہمارے خلاف جہاد کا اعلان کردیا۔ پھر افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد کے قبائلی علاقے میں جو پاکستان کا جزوی طور پر خودمختار علاقہ ہے اور جہاں ہماری آزادی کے وقت سے کوئی فوج تعینات نہیں کی گئی تھی، ان کی افغان طالبان کے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی تھی، اس لیے نہیں کہ ان کا مذہبی نظریہ ایک ہے بلکہ پشتون قومیت کی وجہ سے جو بہت مضبوط تعلق ہے۔ پھر 30 لاکھ افغان پناہ گزین اب بھی پاکستان میں تھے، ان سب کی افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی تھی، وہ بھی پاکستان کے خلاف ہوگئے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پہلی بار پاکستان میں عسکریت پسند طالبان سامنے آئے انہوں نے بھی پاکستانی حکومت پر حملے کیے، ہماری تاریخ میں جب پہلی بار ہماری فوج قبائلی علاقوں میں گئی، جب بھی فوج شہری علاقوں میں جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں بلاتخصیص نقصان ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں بدلہ لینے کے لیے عسکریت پسندوں کی تعداد دگنی اور تگنی ہوگئی، دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ امریکا نے پاکستان میں 480 ڈرون حملے کیے، ہم سب جانتے ہیں کہ ڈرون حملے اپنے ہدف کو درست نشانہ نہیں لگاسکتے، جن لوگوں کے پیارے مارے گئے انہوں نے پاکستان سے بدلہ لیا، 2004 اور 2014 کے درمیان 50 مختلف عسکری گروپ پاکستان کی ریاست پر حملہ آور تھے، ایک وقت تھا جب میرے جیسے لوگ پریشان تھے کہ کیا ہم اس صورت حال کا کامیابی سے مقابلہ کرلیں گے، اگر ہماری فوج نہ ہوتی جو دنیا کہ انتہائی منظم افواج میں سے ایک ہے اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسی بھی دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سے ایک ہے، میرا خیال ہے کہ پاکستان نیچے چلا جاتا۔ ان حالات میں ہمارے لیے کم از کم تعریف کا ایک لفظ ہی کہا جاتا لیکن سراہنے کے بجائے تصور کریں، ہمیں کیسا محسوس ہوتا ہے جب ہم پر افغانستان کے واقعات کے حوالے سے الزام تراشی کی جاتی ہے۔ 2006 کے بعد یہ بات ہر اس فرد کے لیے واضح تھی جو افغانستان کو سمجھتا ہے جو افغانستان کی تاریخ سے آگاہ ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہوگا، میں امریکا گیا، میں نے تھنک ٹینکس کے ساتھ بات کی، میں نے اس وقت سینیٹر بائیڈن، سینیٹر جان کیری اور سینیٹر جان ریڈ سے ملاقات کی، اگر آج دنیا یہ جاننا چاہتی ہے کہ کیوں طالبان واپس اقتدار میں آگئے ہیں تو اسے ایک تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہوگی کہ کیوں تین لاکھ نفوس پر مشتمل سازو سامان سے لیس افغان فوج بھاگ کھڑی ہوئی اور یاد رکھیں کہ افغان قوم دنیا کی بہادر ترین قوموں میں سے ایک ہے اور اس نے مقابلہ نہیں کیا۔ جس لمحے اس کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے گا تو دنیا کو معلوم ہوجائے گا کہ طالبان اقتدار میں واپس کیوں آئے ہیں اور یہ پاکستان کی وجہ سے نہیں ہے۔
انہوں نے کہا اس وقت ساری عالمی برادری کو سوچنا چاہیے کہ آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے۔ ہمارے پاس دوراستے ہیں اگر اس وقت ہم افغانستان کو پس پشت ڈال دیں گے تو اگلے سال تک افغانستان کے نوے فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے، غیر مستحکم اور بحران سے دوچار افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا، آگے جانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم افغان عوام کی خاطر لازمی طور پر موجودہ حکومت کو مستحکم کریں، طالبان نے کیا وعدہ کیا تھا، وہ انسانی حقوق کا احترام کریں گے، وہ ایک مخلوط حکومت بنائیں گے، وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کو استعمال کرنے نہیں دیں گے اور انہوں نے معافی کا اعلان کیا ہے۔ اگر اب عالمی برادری ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ان کے ساتھ بات چیت کرتی ہے تو یہ سب کیلئے کامیابی ہوگی، اگر دنیا اس سمت میں آگے بڑھنے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تو امریکا اتحاد کی افغانستان میں 20 سال کے دوران کی جانے والی کوششیں ضائع نہیں ہوں گی کیونکہ افغانستان کی سرزمین بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی، میں سب پر زور دوں گا کہ یہ افغانستان کے لیے نازک وقت ہے۔ آپ وقت ضائع نہیں کرسکتے، وہاں امداد کی ضرورت ہے، عالمی برادری کو اس مقصد کے لیے متحرک کریں، شکریہ۔