اسلام آباد: وزیراعظم کا کہنا ہے کہ کوئی لابی کسی وزیر کے ذریعے ہم پر دباؤ ڈالے، یہ قابل قبول نہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں 12 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا، کابینہ اجلاس میں سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا، کابینہ کو کورونا کی حالیہ صورت حال سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی، اس کے علاوہ پی ڈی ایم کی تحریک اور سینیٹ انتخابات کی تیاریوں پر بھی تفصیلی مشاورت ہوئی۔
وفاقی کابینہ نے ٹربائن فیول ایوی ایشن ہائی فلیش کی درآمد، سی ڈی اے آرڈیننس 1980 میں ترمیم، یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے ملازمین پر لازمی سروسز ایکٹ کی توسیع، ڈی جی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بحری سائنس، زرعی ترقیاتی بینک کے بورڈ کی تشکیل نو اور ایس ٹی ای ڈی ای سی کے ایم ڈی کی تقرری کی منظوری دے دی۔ اس کے علاوہ الیکٹرک وہیکل اور موبائل مینوفیکچرنگ پالیسیوں کی بھی منظوری دی گئی۔
وزیراعظم نے اجلاس کے دوران کہا کہ وفاقی کابینہ کا ہر فیصلہ اجتماعی حیثیت میں ہوتا ہے، کوئی لابی کسی وزیر کے ذریعے دباؤ ڈالے یہ قابل قبول نہیں، کسی وزیر کو کوئی لابی تنگ کرے تو وہ کابینہ کو یا مجھے الگ سے بتائے، ہم فیصلے کسی لابی کے دباؤ میں نہیں بلکہ شفاف اور میرٹ پر کریں گے۔
وفاقی کابینہ نے مردم شماری پر وزراء کمیٹی کی رپورٹ پیش کی، ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر امین الحق نے رپورٹ کو مسترد کردیا، وفاقی کابینہ نے ایم کیو ایم کے اختلافی نوٹ کے ساتھ رپورٹ کو منظور کرلیا، اختلافی نوٹ میں ایم کیو ایم کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ نئی مردم شماری فوری طور پر کروائی جائے۔
وفاقی کابینہ میں ساتویں مردم شماری کرانے کے لیے بھی بات چیت کی گئی جس پر وزرا کی جانب سے رائے دی گئی کہ آئین کے تحت حکومت کسی بھی وقت مردم شماری کرواسکتی ہے، آئندہ مردم شماری میں مرکزی کردار نادرا کا ہونا چاہیے، وفاقی کابینہ نے مردم شماری کے معاملے پر مزید مشاورت کے لیے وزارتی کمیٹی قائم کردی۔