بلاخر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل تین بار کمی کے بعد اچانک اور ہوشربا اضافہ کردیا گیا، دو چار نہیں بلکہ پورے پچیس روپے فی لیٹر پیٹرول مہنگا کیا گیا ہے، حکومت کے اس اچانک فیصلے کے ملکی معیشت پر جہاں دور رس نتائج مرتب ہوں گے، وہیں اپوزیشن اور عوام کی جانب سے بھی شدید ردعمل کا سامنا رہے گا۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد جہاں میڈیا پر خبروں اور ٹاک شوز کا بازار گرم ہے، وہیں سوشل میڈیا بھی پیچھے نہیں، اپوزیشن کو بھی حکومت پر تنقید کا نیا سرا ہاتھ آگیا، عوام حکومت کے اس فیصلے خوش نہیں، خیر عوام تو پہلے بھی خوش نہیں تھے، جب پیٹرول باہتر روپے لیٹر تھا۔
پیٹرول کی فی لیٹر قیمت ایک سو روپے سے کچھ زائد ہے، عام خیال یہی ہے کہ حکومت نے مارکیٹنگ کمپنیز کے دباؤ میں آکر یک لخت پچیس روپے قیمت بڑھادی، اس سے قبل حکومت نے مسلسل تین بار پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی تھی، جس کی وجہ بین الاقوامی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں کا کئی برس کی نچلی سطح پر آجانا تھا، مجموعی طور پر مارچ کے اواخر سے چھبیس جون تک پیٹرول کی قیمت میں سینتیس روپے فی لیٹر کمی ہوئی تھی، اقتصادی ماہرین کا خیال تھا کہ پاکستان میں اب مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی آئے گی، صنعتوں اور کارخانوں کی لاگت پیداوار کم ہونے سے اشیا کی قیمتیں بھی کم جائیں گی، لیکن ایسا کچھ نہ ہوسکا، آٹا، چینی، دال اور گھی تیل سمیت کسی چیز کے دام نیچے نہ آسکے، صنعت کار اور دکاندار شکوہ کناں رہے کہ کاسٹ آف ڈؤئنگ بزنس بہت زیادہ ہے، بجلی اور گیس کافی مہنگی ہے، پالیسی ریٹ بلند ہے، سستی اشیا نہیں بیچ سکتے، لہذا اب جب پیٹرول مہنگا ہوگیا ہے تو پھر کسی چیز کے دام نیچے آنے کی امید کرنا محض دیوانے کے خواب کے مترادف ہے۔
ماضی قریب میں جب پیٹرول کی قیمت میں کمی کی گئی تھی، تب بیشتر نجی فلنگ اسٹیشنز پر پیٹرول نایاب تھا، در در بھٹکنے کے بعد بھی پیٹرول کا حصول مشکل تھا، صرف پاکستان اسٹیٹ آئل پر ہی پیٹرول دستیاب تھا، کم قیمت پر مارکیٹنگ کمپنیز پیٹرول بیچنے کو تیار نہیں تھیں، انھوں نے زیادہ قیمت پر پیٹرول درآمد کیا تھا، لیکن قیمت میں بار بار کمی سے ان کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا، خدشہ تھا کہ اگر پیٹرول کی قیمت میں فوری اضافہ نہ ہوتا تو پمپس بند کردیئے جاتے۔
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے تمام تر صورتحال کا بغور جائزہ لیا، کئی مارکیٹنگ کمپنیز کو شوکاز نوٹسز بھی بھیجے گئے، پیٹرول ڈپوز پر چھاپے بھی مارے، لیکن نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات کی صورت میں سامنے آیا، چند پمپس کے علاوہ کسی صورت ترسیل بہتر نہ ہوسکی، اور اب جب پیٹرول پچیس روپے لیٹر اضافے سے ایک سو روپے فی لیٹر ہوگیا تو عام خیال یہی ہے کہ پیٹرول مافیا نے قیمت میں اضافہ کروایا ہے۔
دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتیں جو عوام کی ہمدرد بنی ہوئی ہیں، وہ شدید ردعمل دے رہی ہیں، مسلم لیگ نون کے رہنماؤں نے تو وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے، پی ایم ایل این کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پیٹرول کی قیمت میں اضافے کو حکومت کی ناکامی قرار دیا، خواجہ آصف نے کہا حکومت کا ہر لمحہ ملک پر بھاری ہے، احسن اقبال بولے حکومت نے راتوں رات مافیا کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچایا، پیٹرول مہنگا ہونے کے بعد عوام بھی اپوزیشن کی ہم آواز ہوگئے، پیٹرول مہنگا ہوتے ہی بند پمپس بھی کھل گئے۔۔ قلت قلت کا شور مچانے والے پمپس کے ٹینک اچانک پیٹرول اگلنے لگے۔ سوشل میڈیا پر بھی تنقید جاری ہے، شہری کہتےہیں مافیا کامیاب ہوگیا، حکومت نے ہتھیار ڈال ہی دیئے، ایسے میں حکومتی وضاحتیں بھی جاری ہیں، وزیر توانائی عمرایوب کے مطابق عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت ایک سو بارہ فیصد بڑھ گئی، پاکستان میں اب بھی قیمت کم ہے، معاون خصوصی ندیم بابر نے بھی قیمت سترہ روپے کم بڑھانے کا احسان جتا دیا۔
دوسری جانب تاجر طبقہ بھی حکومت کے اس فیصلے سے ناخوش ہے، تاجروں کی ایپیکس باڈی وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان نے بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر سخت غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے فیصلے کو صنعتی شعبے کے لئے تباہ کن قرار دیا، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز سمیت ساتوں انڈسٹریل ایسوسی ایشنز اور دیگر تاجر تنظیموں نے پیٹرول کی قیمت میں کمی کا مطالبہ دہرایا، فی الحال پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بلاوجہ نہیں، یقیناً حکومت کے پاس اس کی بہترین حکمت عملی موجود ہوگی اور اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں حکومت عوام کو ریلیف دے گی۔