پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ، قصہ پارینہ؟

طارق حنیف

2018کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کی زیر قیادت کامیابی سمیٹی اور عمران خان وزیراعظم پاکستان بن گئے۔ اس پر اپوزیشن کی جماعتوں نے اعتراض اُٹھایا کہ الیکشن میں پاکستان کے مقتدر حلقوں نے دھاندلی کی ہے اور تحریک انصاف دھاندلی کی بنیادپر حکومت میں آئی ہے۔ ماضی میں بھی تقریباً پاکستان کے ہر الیکشن کے بعد ہارنے والی جماعتیں اس طرح کے اعتراضات اٹھاتی رہی ہیں۔

الیکشن کے فوراً بعد جمیعت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے منتخب نمائندوں اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو یہ تجویز پیش کی کہ دھاندلی زدہ اسمبلی میں حلف ہی نہ اٹھایا جائے، مگر ملک کی بیشتر سیاسی قیادت نے ان کی تجویز سے اتفاق نہ کیا۔ 

انتخابات کو دو سال گزرجانے کے بعد تحریک انصاف حکومت کی بری کارکردگی کی وجہ سے اس حکومت کے خاتمے کے لیے بیس ستمبر 2020 کو پاکستان پیپلزپارٹی نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی، جس میں اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں حکومت مخالف تحریک کی بنیاد رکھی گئی، جسے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا نام دیا گیا۔ یہ تحریک چھبیس نکاتی ایجنڈے پر مشتمل تھی جس میں چند اہم نکات غیر سیاسی قوتوں کی سیاست میں مداخلت ختم کرنا، پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ اور انتخابی اصلاحات جیسے نکات شامل تھے۔ اس تحریک کی صدارت جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحما ن کے ذمے آئی۔

پی ڈی ایم نے عوام کو ساتھ اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے جلسوں کا آغاز کیا۔ سولہ اکتوبر 2020 کو پی ڈی ایم کا پہلا پاور شو گوجرانوالہ میں ہوا جس میں ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سربراہ نوازشریف نے دو اداروں کے سربراہان کے نام لے کر ان پر تنقید کی اوران پر الیکشن چوری کرنے کے الزامات عائد کیے۔جس کے بعد سے پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں اور ن لیگ میں دوریاں آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوئیں کیونکہ دیگر جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اس حد تک جانے کو تیار نہیں تھیں اور ان کے علم میں لائے بغیریہ نام لیے گئے۔

مسلم لیگ ن اور سربراہ پی ڈی ایم چاہتے تھے کہ اسمبلیوں سے استعفے دیے جائیں مگر پیپلزپارٹی ہمیشہ استعفوں کی مخالف رہی اور سسٹم کے اندر رہ کر حکومت مخالف اقدامات پر زور دیا اور استعفوں کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کرنے کی تلقین بھی کرتی رہی۔ پیپلزپارٹی کے ایما پر پی ڈی ایم دیگر جماعتوں نے ضمنی الیکشنز میں بھی حصہ لیا۔ پھر وہ وقت آیا جب سینیٹ الیکشن میں پیپلزپارٹی کے امیدوارسید یوسف رضاگیلانی کم نمبروں کے باوجود جیت گئے۔ قیاس آرائیاں رہیں کہ یہ جیت ان کودلائی گئی ہے جو پہلے سے طے شدہ تھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کی مشاورت کے بغیراپوزیشن لیڈر بھی بن گئے۔ جس پر ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں اختلاف زیادہ ہوا۔

ن لیگ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن کا امیدوار طے ہواتھا۔ اس تنازع پر مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان کے کہنے پر پیپلزپارٹی اور اے این پی کو شوکاز نوٹس جاری کردیا، جس پریہ دونوں جماعتیں ناراض ہوگئیں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے رہنما ایک دوسرے پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کے الزامات لگانے لگے۔ تمام جماعتیں بظاہر تو ایک ساتھ تھیں مگر ان کے معاملات سے لگتا ہے کہ یہ ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے تھے ہر کسی کو خدشہ تھا کہ ہمیں سائیڈ کر کے کوئی دوسرا اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرکے فوائد نہ اٹھالے۔

ان تمام معاملات کے بعد ایک وقت یہ آیا کہ آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کی اسلام آباد سے کراچی منتقلی کا عندیہ بھی ملا اور یوسف رضاگیلانی کی سینیٹ میں جیت پر بھی سوالات اُٹھائے گئے۔ اس کے ساتھ ن لیگ کے رہنماؤں کو عدالتوں سے ریلیف ملنے پر پیپلزپارٹی نے جواباً ان پر ڈیل کا الزام لگایا۔ اب پیپلزپارٹی اور اے این پی نے پی ڈی ایم سے استعفیٰ دے دیا جو پی ڈی ایم سربراہ نے قبول کرلیے اور اس طرح اب پی ڈی ایم اپنی وہ آب و تاب کھو چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی مہنگائی، بے روزگاری،افلاس و بھوک اور خراب ملکی حالات کے باوجود پی ڈی ایم عوام میں مقبول نہ رہی اور نہ ہی کوئی بڑے پیمانے پر لوگ اس میں شامل ہوئے۔ پھر ان کے آپس میں اختلافات نے واضح کر دیا کہ پی ڈی ایم ذاتی مفاد کے لیے بنائی گئی ایک تنظیم تھی جس میں عوامی مسائل پر کسی کو کوئی ہمدردی نہ تھی اس کے ساتھ حکومتی اراکین نے پہلے دن سے اسے مفاداتی گٹھ جوڑ قرار دے دیا تھا۔

ماضی میں بھی پاکستانی سیاست میں سیاسی معاہدے ہوئے جن میں قابل ذکر نوازشریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان ہونے والا میثاق جمہوریت ہے۔ پی ڈی ایم بھی اسی طرح کی ایک سیاسی، ذاتی مفادات کی تنظیم تھی، جس کا مقصد بظاہر اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر نوازشریف کی واپسی کی راہ ہموار کرنا، اپوزیشن کے کیسز میں رعایتیں اور دیگر مراعات و فوائد لینا تھا، لیکن اب لگتا یہی ہے کہ دونوں جماعتیں کافی آسانی میں ہیں اور شاید اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوگئی ہیں کیونکہ زرداری صاحب کو اپنے مقدمات میں کافی آسانیاں مل گئیں، سینیٹ الیکشن میں یوسف رضاگیلانی کی کامیابی ہوئی اور سینیٹ میں وہ اپوزیشن لیڈر بھی بنے جبکہ دوسری طرف شہبازشریف اور حمزہ شہباز سمیت ن لیگ کے رہنماؤں کی جیلوں سے رہائیاں اور ریلیف بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا اسٹیبلشمنٹ سے متعلق رویہ بھی کافی نرم ہوچکا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کے مقاصد پورے ہوچکے ہیں، جس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نکلے تھے اسی سے بیک ڈور رابطوں کے الزامات توسب ایک دوسرے پر لگاتے رہے ہیں۔ پی ڈی ایم اب دم توڑچکی ہے یا شاید اپناطے شدہ ہدف مکمل کر چکی ہے۔