اردو ادب کو اپنی تحریروں کے ذریعے معطر کرنے والے پطرس بخاری کی آج 62 ویں برسی منائی جارہی ہے۔ 5 دسمبر 1958 کو نیویارک (امریکا) میں آپ کا انتقال ہوا تھا۔ آپ کی وفات کو اتنے برس بیت جانے کے باوجود آج بھی آپ کے قارئین اور مداح دُنیا بھر میں موجود ہیں۔ آپ کی تحریریں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔
آپ کا اصل نام پیر سید احمد شاہ بخاری تھا، تاہم قلمی نام پطرس بخاری سے معروف ہوئے۔ آپ ہمہ جہت خوبیوں کے حامل تھے۔ مزاح نگار، براڈ کاسٹر، سفیر، پروفیسر، غرض جس شعبے میں قدم رکھا، وہاں اپنی دھاک بٹھائی۔ آپ کے چھوٹے بھائی زیڈ اے بخاری ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ پطرس بخاری یکم اکتوبر 1898 کو پشاور (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے۔ پہلے اسلامیہ کالج پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور انگریزی میں ماسٹرز کرنے کے بعد آپ اسی کالج میں لیکچرار مقرر ہوگئے۔
آپ کی انگریزی کمال کی تھی اور اس پر آپ کو خوب ملکہ حاصل تھا۔ پطرس بخاری انگریزی ادب کا ترجمہ کرنے لگے۔ مضامین بھی خوب لکھے۔ 1927 میں آپ کے مضامین پر مشتمل کتاب ”پطرس کے مضامین“ کے عنوان سے شائع ہوئی، جسے اُردو ادب کا عظیم سرمایہ گردانا جاتا ہے۔ قبل ازیں 1925 میں آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور چھوڑ کر Tripos مکمل کرنے کے لیے ایمانوئیل کالج کیمبرج (برطانیہ) کا رُخ کیا۔ 1927 میں واپس آئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ 1939 تک اس حیثیت میں خدمات انجام دیں۔ پاکستان کی آزادی سے قبل 1947 میں آپ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے 1947 سے 1950 تک پرنسپل رہے۔ مشہور شاعر فیض، ن م راشد وغیرہ کا شمار آپ کے ہونہار شاگردوں میں ہوتا ہے۔
1950 میں اقوام متحدہ کے دورے کے موقع پر وزیراعظم لیاقت علی خان آپ کی صلاحیتوں سے خاصے متاثر ہوئے۔ اُن کے قائل کرنے پر آپ اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل نمائندے بنے اور اس حیثیت میں 1951 سے 1954 تک خدمات انجام دیں۔ 1954 سے 1958 تک اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری (ہیڈ آف انفارمیشن) رہے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی خدمات کے اعتراف میں پاکستان پوسٹ نے یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا۔ آپ کو وفات کے پینتالیس برس بعد 2003 میں ہلال امتیاز عطا کیا گیا۔ تیونس حکومت نے آزادی کے ضمن میں عظیم خدمات پر 1956 میں اپنی ایک سڑک کا نام آپ کے نام پر رکھا۔