وطن عزیز کا قیام ایک طویل سیاسی جدوجہد کی صورت میں ممکن ہوا۔ اُس دور کے سیاسی نظریات رکھنے والے اکابرین نے ایک آزاد مسلم ریاست کے وجود کا خواب دیکھا اور اس خواب کی تکمیل کے لیے تمام سیاسی افکار و نظریات کے علمبردار نوجوان، طلباء، صحافی، اہل قلم کو اس فکر کی جانب باقاعدہ دعوت دینا شروع کی۔ اس دعوت فکر کا اثر غیر منقسم ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے گھر گھر پہنچ گیا، اسی نظریاتی سفر سے بہت بڑے بڑے مسلمان سیاسی رہنماؤں کا جنم ہوا، جنہوں نے ہندوستان پر مسلط انگریز سامراج کے خلاف جنگ آزادی سے باقاعدہ آزادی ہندوستان اور مسلمانوں کی دھرتی پر طاقتور قابضین کے لیے زمین کو تنگ کردیا۔ مسلمان رہنماؤں نے اس جدوجہد کو خالصتاََ سیاسی فکر کے ذریعے چلایا، تمام تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے مسلمان طلباء کو باقاعدہ اس سیاسی تحریک کا بنیادی رکن بنایا گیا، تاکہ یہ کل کے سیاسی مدبر، مقرر، معزز رہنما بن کر اس آزادی کی جنگ میں اپنی سیاسی بساط کے عین مطابق جدوجہد کریں۔ اُس وقت کی طاقتور قوتوں کو بھی اس سیاسی تربیت یافتہ مگر کمزور معاشی طاقت رکھنے والی تحریک نے ہر محاذ پر شکست دی، اسی تناظر میں پاکستان کا وجود عمل میں آیا اور 14 اگست 1947 کو پاکستان کو ایک آزاد مسلم ریاست کے طور پر دنیا نے تسلیم کیا۔
آزادی پاکستان کے بعد پاکستان بدترین سیاسی کشمکش کا شکار رہا۔ شروع شروع میں لیاقت علی خان اور دیگر جو آزادی وطن کے عظیم متحرک رہبر تھے، ان کو اس نومولود ریاست کو چلانے کا موقع ملا، جنہوں نے ملک کو ایک ڈگر پر لیکر چلنے کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی مگر ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان صاحب کو ملک دشمن عناصر نے گولیوں کا نشانہ بناکر شہید کردیا۔ یہ محض آزادی کے عین دو برس عمر رکھنے والے ملک میں پہلا سیاسی قتل تھا جوملک کے وزیراعظم کا تھا۔
لیاقت علی خان کا قتل دراصل اس نومولود ریاست میں سیاسی نرسری کا قتل تھا، جس کی سربراہی میں سیاسی انداز میں ریاست نے آگے بڑھ جانا تھا، ان کا وژن قائداعظم محمد علی جناح کا وژن تھا۔
اس تحریک کے مزید کچھ بڑے نام جو اس تقسیم کے حق میں نہیں تھے، انہوں نے تقسیم ہند کی مخالفت کی اور پاکستان کے بجائے بھارت ہی کو اپنے لیے چنا اور وہیں رہ گئے، جن میں ابوالکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی رح و دیگر سرفہرست تھے۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان شدید سیاسی کشمکش کا شکار رہا، جہاں سیاسی معاملات ایسے من پسند افراد کے ہاتھوں تھمادیے گئے جن کو سیاسی معاملات کی گہرائی اور معاملہ فہمی کا ذرہ برابر بھی ادراک نہ تھا، جس کی وجہ سے نومولود ریاست کو اندرونی اور بیرونی سطح پر شدید خلفشار و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان کی تاریخ میں 1965 کے بعد سے سیاسی شعور پروان چڑھنے لگا، جہاں ملک کے بڑے بڑے نامور سیاستدان میدان عمل میں بڑے طاقتور عوامی قوت اور نظریات کے ساتھ کھڑے نظر آئے، جن میں اس وقت کے ایوب خان کے کابینہ کے وزیر خارجہ شہید ذوالفقار علی بھٹو، نہایت اعلیٰ پائے کے پڑھے لکھے شخص تھے، جن کے نزدیک ملک میں عوام کا سب سے بڑا حق ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کی بنیاد ایک نظریے کی بنیاد پر رکھی، جن کا نظریہ سوشل ازم تھا، اسی تناظر میں ان کو مغربی پاکستان میں بہت زیادہ مقبولیت ملی۔ اسی طرح مشرقی پاکستان جو ہم سے علیحدہ ہوگیا مگر وہاں جماعت اسلامی علامہ مودودی کے نظریات کو پروان چڑھانے لگی اور شیخ مجیب الرحمٰن کی جماعت کو عوامی سطح پر مقبولیت ملی۔
70 کی دہائی گویا پاکستان کے لیے بڑا ہی معتبر سیاسی دور رہا، جہاں پیپلز پارٹی ملک بھر سے بڑے بڑے نامور سیاستدان میدان عمل لائی۔ جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے مفتی محمود سمیت بڑے بڑے قائدین کا سیاسی افق پر جنم ہوا، علامہ شاہ احمد نورانی، نواب زادہ نصراللہ خان، معراج محمد خان، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ولی خان، خان عبدالصمد خان، نیشنل عوامی پارٹی کے قائدین سردار عطاء اللہ خان مینگل، نواب خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو، نواب اکبرخان بگٹی، میر ظفراللہ جمالی، بلخ شیر مزاری، مولانا کوثر نیازی، حفیظ پیرزادہ، چودھری ظہور الٰہی سمیت اُس وقت ملک میں ہر مقامی سطح پر سیاسی نظریاتی کارکنان کا جنم ہوا۔
تاریخ پا کستان کے سیاسی ادوار میں سب سے شاندار دور 70 کی دہائی کو لکھا جاتا ہے، جہاں ریاست کو پہلا متفقہ آئین ملا، پہلی عوامی منتخب حکومت قائم ہوئی، مزدوروں کے حقوق مرتب کرکے قانونی کردیے گئے، انڈسٹریل دور کا آغاز ہوا، غریبوں، کسانوں میں لینڈ ریفارمز کی صورت زمینیں تقسیم کی گئیں، طلباء کو آئین کے اندر اپنی طلبہ تنظیمیں بنانے کا اختیار دیا گیا، طلباء سیاست، ملک کے سیاسی نظام کی نرسری ہے، اسے پروان چڑھایا گیا، ملک کو دفاعی اعتبار سے مضبوط بنانے کے لیے ایٹمی صلاحیتوں سے مالا مال کرنے کے لیے جوہری ہتھیاروں کا پروگرام شروع ہوا، جہاں ستر کی دہائی سیاسی اعتبار سے ہماری تاریخ کا مضبوط ترین دور ہے، وہیں سقوط ڈھاکا اس دور کا ایک بدنما سیاہ باب ہے۔
80 کی دہائی کے اواخر اور 90 کی دہائی میں ملک میں محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے والد کے مشن پر گامزن سامنے آئیں، وہیں پنچاب سے میاں شریف کے فرزند نوازشریف مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اجاگر ہوئے، کراچی سے مہاجر قومی موومنٹ (متحدہ قومی موومنٹ) کا جنم ہوا، جس سے متحرک متوسط طبقے کے نوجوان سیاسی لیڈر سامنے آئے۔ سندھی قوم پرست جماعتوں سے بشیر احمد قریشی، ایاز لطیف پلیجو، ڈاکٹر قادر مگسی، ممتاز بھٹو، جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمٰن، علامہ محمد خان شیرانی، خالد محمود سومرو، بلوچستان نیشنل پارٹی سے سردار اختر مینگل، نیشنل پارٹی سے میر حاصل خان بزنجو، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، عوامی نیشنل پارٹی سے اسفندیار ولی، بشیر بلور سمیت نئی پرجوش سیاسی قیادت کا جنم ہوا۔
90 کی دہائی کے آخر میں سیاسی کارکنان و قیادت کو سختیوں کا سامنا کرنا پڑا، مشرف دور میں جہاں بینظیر بھٹو صاحبہ کو شہید کیا گیا، اس کے ساتھ ملک میں ان کے شوہر آصف علی زرداری، فرزند بلاول بھٹو زرداری سیاسی افق پر بطور قائد سامنے آئے، یہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیاسی و معاشی دور تھا، جہاں ملک میں ہر طرف دہشت گردی عام تھی، کسی بھی انسان کی جان محفوظ نہیں تھا۔ عام انتخابات ہوئے، پیپلز پارٹی کو ملک کی باگ ڈور ملی۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان معاہدہ میثاق جمہوریت پر عمل شروع ہوا، اسی دور میں ملک میں سابق کرکٹر عمران خان جو پہلے سے ہی میدان سیاست میں آچکے تھے مگر کامیابی ان کو نہیں ملی تھی، عمران خان کا سیاسی افق پر ظہور 2010 میں اس وقت ہوا، جب ان کا اور طاہرالقادری کا احتجاجی مظاہرہ ہوا۔
2013 میں مسلم لیگ نواز کو حکومت ملی، مگر بدقسمتی سے دوتہائی اکثریت والی حکومت کی راہ میں رکاوٹ بننے کیلئے عمران خان دھرنا دے کر اسلام آباد میں بیٹھ گئے، 2018 میں عمران خان کو حکومت ملی اور 2022 میں عدم اعتماد کے ذریعے ان کی حکومت کو گھر بھیج دیا گیا۔
2000 کے بعد سے پاکستان کا سیاسی دور یکسر بدل گیا۔ نظریاتی، فکری سوچ و فکر رکھنے والے سوشلسٹ کارکنان کی سیاسی میدان میں جگہ بنانا مشکل ہوگیا، جہاں مکمل طور پر سرمایہ دارانہ نظام نے سیاست کی سربراہی سنبھال لی، وہیں ملک میں سیاسی نرسری نچلے طبقے کے سیاسی کارکنان میں سیاست سے دوری شروع ہوئی، جس کا خمیازہ آج اس ملک کو بڑے مسائل کی صورت بھگتنا پڑرہا ہے۔
پاکستان کے تمام مسائل کا حل سیاسی نرسری کی نچلے طبقے تک بحالی کی صورت ممکن ہے۔ متوسط طبقے کے نمائندے ہی متوسط طبقے کے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں، لہٰذا ملکی معاشی صورت حال سے نمٹنے کا واحد حل سیاسی میدان میں سیاسی فکر و سوچ کے حامل کارکنان کو موقع دینے کی صورت ممکن ہے، بصورت دیگر پاکستان جہاں 70 سال پہلے کھڑا تھا، 70 سال بعد بھی اسی مقام پر رہے گا۔