پاکستانی میڈیا ، سوشل میڈیا اور ان کے نقصانات

ماہم ارشد

    پاکستان میں میڈیا برٹش ہند کے تقسیم سے پہلے کے سالوں کا ہے، جہاں فرقہ وارانہ یا تقسیم کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لئے متعدد اخبارات قائم کیے گئے تھے۔ اخبار ڈان ، جس کی بنیاد محمد علی جناح نے رکھی تھی اور سب سے پہلے 1941 میں شائع ہوا تھا، "مسلم مخالف پروپیگنڈہ” کا مقابلہ کرنے کے لئے وقف کیا گیا تھا جو ہندو اخبار میں بے چین تھا اور ایک آزاد پاکستان کے لئے فروغ پذیر تھا۔ قدامت پسند اخبار، نوائے وقت، 1940 میں قائم کیا گیا تھا۔ وہ مسلم اشرافیہ کا منہ بولا تھا جو آزاد پاکستان کے مضبوط حامیوں میں شامل تھا۔ ایک لحاظ سے پاکستانی پرنٹ میڈیا نظریہ پاکستان کو فروغ دینے کے مشن کے ساتھ وجود میں آیا،جسے برطانوی ہندوستان میں مسلم اقلیت کے لئے بہترین قومی آپشن اور ہندو اکثریت سے دباؤ کے خلاف دفاع کی ایک شکل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

ملک میں الیکٹرانک میڈیا کی ترقی کا سفر 14 اگست 1947 سے شروع ہوتا ہے۔ جب پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا تھا۔ آزادی کے وقت پاکستان کے پاس ڈھاکہ، لاہور اور پشاور میں تین ریڈیو اسٹیشن موجود تھے۔ توسیع کے ایک بڑے پروگرام نے 1948 میں کراچی اور راولپنڈی میں نئے اسٹیشنز کا افتتاح کیا اور 1950 میں کراچی میں ایک نیا براڈکاسٹنگ ہاؤس۔ اس کے بعد حیدرآباد (1951) ، کوئٹہ (1956) ، راولپنڈی میں ایک دوسرا اسٹیشن (1960) کے بعد مزید اسٹیشن آئے۔ اور پشاور (1960) میں وصول کنندہ مرکز۔ اکتوبر 1998 میں ، ریڈیو پاکستان نے اپنا پہلا ایف ایم ٹرانسمیشن شروع کیا۔ لیکن آج کے اسی میڈیا کی بات کی جائے تو یہی میڈیا آج کے نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس میں پاکستانی فلمز ہوں یا پاکستانی ڈرامے وہ آج کے نوجوان نسلوں میں عقل و شعور دینے کے بجائے اور انھیں غلط راہ میں دھکیل رہے ہیں۔

فلمز اور ڈراموں میں دیکھائے جانے والے بیحودہ قسم کے لباس اور غیر مناسب سینس۔ ان سب چیزوں سے آج کی نوجوان نسل جیسے کل اپنے ملک اور والدین کا نام روشن کرنا  ہے اس کے دماغ پر کیسے اثرات پڑیں گے؟ آج کے ٹی وی ایڈورٹائزمنٹ بھی بہت بے ہودہ قسم کے آتے ہیں جو کہ والدین کے ساتھ بھی بیٹھ کر نہیں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ جو وقت چل رہا ہے یہی مستقبل میں کامیابی کا باعث بن سکے گا آج کے تمام طلبہ ہمارے مستقبل کے روشن چراغ ہونگے اگر یہ آج کے وقت میں سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کرسکیں۔ میڈیا پر بہت فحاش فلمز دیکھائی جاتیں جس سے بچے بڑے ہوں یا چھوٹے دماغ پر انتہائی گندے اثرات پڑتے ہیں۔

یہی وجہ ہے جو آج اتنے زنا کے کیس نکلتے جارہے ہیں یوٹیوب ہو یا اور کوئی بھی ویبسائٹ انتہائی گندی ویڈیوز ڈالی وی ہوتی ہیں اور اس طرح کی وہ تمام ویڈیوز ہمارے مستقبل کے روشن چراغوں کو تعلیم سے دور کر رہی ہیں اور انے وقت سے پہلے بالغ کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ پاکستانی میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ہو دونوں کا کام ملک کے لوگوں کو دنیا کے تمام حالات سے واقف رکھنا ہے۔ ریاست کے اندرونی محاذ کو مستحکم کرنے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے میں پاکستانی میڈیا کا کردار اتنا مطلوبہ نہیں ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں کے نقصانات سے اسی  حد تک بچا جاسکتا ہے جب والدین اپنی اولاد پر نظر رکھیں انکی تمام سرگرمیوں پر بظر رکھیں اور دیکھیں کہ آپ کا بچہ اپنی تعلیم کو لے کر کتنا سنجیدہ ہے۔ یاد رہے یہی وہ بچے ہیں جو آنے والے مستقبل کا روشن چراغ ہوں گے۔ انشااللہ!

نوٹ: یہ بلاگر کے ذاتی خیالات ہیں۔ ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

disadvantages of mediaMediapakistani mediasocial Media