اسلام آباد: عدالت عظمیٰ کے جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ نجی اسٹیل ملز منافع میں ہیں تو پاکستان اسٹیل ملز کا کیا مسئلہ ہے؟
سپریم کورٹ میں پاکستان اسٹیل ملز کیس کی سماعت ہوئی۔ سیکریٹری نج کاری کمیشن حسن ناصر جامی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ وفاقی وزراء بتائیں اسٹیل مل کے ساتھ کیا کرنا ہے؟ اس پر روزانہ کا خرچہ بلاوجہ ہورہا ہے، سرکار کا پیسے بانٹنے کے لیے نہیں ہوتا؟، مل بند پڑی ہے ملازمین کو پیسے کس بات کے دیں۔
اسٹیل مل ملازمین کے وکیل نے جواب دیا کہ اگر مل بند پڑی ہے تو اس کی ذمے دار انتظامیہ ہے۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری نج کاری حسن ناصر جامی سے استفسار کیا کہ کیوں نہ اسٹیل مل کا روز کا خرچہ آپ سے نکلوائیں، آپ کی ناکامی ہے جو یہ خرچہ ہورہا ہے، آپ کو اس پیسے کے جانے کا کوئی درد نہیں؟ کسی قابل آدمی کو آنے دیں آپ گھر جائیں، آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں، اتنا علم نہیں کہ اسٹیل مل کا حجم کتنا ہے تو نج کاری کیا کریں گے، ایک سال میں یہ بھی معلوم نہیں کہ اسٹیل مل کے کتنے پروجیکٹ چل رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام صنعتیں بیٹھ گئیں تماشا مچایا ہوا ہے، پی آئی اے، ہیوی مکینکل کمپلیکس، شپ یارڈ بند پڑے ہیں، کسی فیکٹری کا پہیہ نہیں چل رہا، صرف پیسہ جارہا ہے، پاکستان کے بحری جہاز چین میں بن رہے ہیں، اسٹیل مل کو چلائیں۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ نجی اسٹیل ملز منافع میں ہیں تو سرکاری اسٹیل مل کا کیا مسئلہ ہے۔؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹیل مل میں بجلی، پانی، تنخواہیں سب کچھ مل رہا ہے بس مل بند ہے، کسی سرکاری افسر کو پروا نہیں سب گھروں میں سو رہے ہیں، اسٹیل مل میں 450 افسران کریں گے کیا؟ تمام افسران کو ایک لیٹر سے گھر بھجوائیں، اسٹیل مل کے چیئرمین بیرون ملک گھوم رہے ہیں۔
وکیل پاکستان اسٹیل مل شاہد باجوہ نے کہا کہ اسٹیل مل کو صرف 40 افسران کی ضرورت ہے، چینی ماہرین کے مطابق اسٹیل مل کو چلانے کے لیے 500 ملین ڈالر درکار ہوں گے، صرف 70 سے 80 فیصد ملازمین کو برقرار رکھ سکتے ہیں، قوم کے مفاد میں عدالت بقیہ 51 فیصد ملازمین نکالنے کی اجازت دے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کے پاس اتنا پیسہ ہی نہیں کہ مل چلا سکے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نج کاری کرنے میں 550 سال لگ جائیں تو کیا فائدہ ہے۔
وزیر نج کاری نے جواب دیا کہ واجبات ختم ہونے کے بعد ہی نج کاری کا عمل مکمل ہوگا۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے بتایا کہ بنیادی طور پر اسٹیل مل کو لیز پر دیا جائے گا اور ملکیت حکومت کے پاس ہی رہے گی۔
وفاقی وزیر نج کاری محمد میاں سومرو نے عدالت میں کہا کہ اسٹیل مل کے اثاثوں کی مالیت 100 ملین ڈالر ہے، ستمبر یا اکتوبر میں اس کی بولی لگنے کا امکان ہے، واجبات ادا کرکے اسٹیل مل کو پُرکشش بنائیں گے۔
سپریم کورٹ نے اسٹیل مل کے حوالے سے منصوبے کو تحریری طور پر پیش کرنے کا حکم دیا۔ نج کاری کمیشن اور وزارت صنعت و پیداوار سے دوہفتے میں جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ آگاہ کیا جائے، اسٹیل مل کے حوالے سے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں، عدالت نے حکم دیا کہ ملازمین اور اسٹیل مل کے وکلاء بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالیں۔ عدالت نے اسٹیل ملز انتظامیہ اور ملازمین کے درمیان رشید اے رضوی کو ثالث مقرر کردیا۔