کہتے ہیں جب وقت برا چل رہا ہوتا ہے تو سارے کام الٹے ہوتے ہیں اس کے برعکس جب وقت اچھا چل رہا ہو تو سارے کام اچھے ہوتے ہیں۔ پاکستان ٹیم کا وقت اچھا چل رہا ہے یا ٹیم کامبینیشن اچھا بن گیا ہے یہ تو وقت بتائے گا۔ ہم کرکٹ کے شیدائی تو آج کل پاکستان کی کرکٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس قدر شاندار پرفارمنس کہ دنیا بھر کے کرکٹ شائقین اور ماہرین کو حیران کردیا ہے۔ شاہین کھلاڑی دنیا بھر سے تعریفیں سمیٹ رہے ہیں اور کرکٹ کے دیوانوں کا دل جیت رہے ہیں۔ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جو پورے پاکستان کو جوڑ کر رکھتا ہے۔
جس خود اعتمادی کے ساتھ لڑکے ورلڈ کپ کھیل رہے ہیں سالوں سے پاکستانی اس خود اعتمادی کو دیکھنے کے لئے ترس رہے تھے۔ اسی اعتماد کے ساتھ 2009 کا ورلڈ کپ پاکستان کھیلا تھا، شاندار بیٹنگ اور جاندار بالنگ کے ساتھ۔ اس بار بھی پاکستان ٹیم کچھ اسی طرح جاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کرتی نظر آرہی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی بات ہو اور آصف علی کی بات نہ ہو ایسا کیسے ممکن ہے؟ آصف علی نے اپنی غیر معمولی کارکردگی سے سب کو حیران کردیا ہے۔ یاد رہے آصف کی سلیکشن پر سب سے زیادہ سوا اُٹھائے جا رہے تھے اور وہ سوال ٹھیک بھی تھے کیوں کہ پچھلے کچھ عرصے سے آصف علی نے کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا لیکن ناقدین کے منہ بند کرنے کا سب سے بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟ اپنے آپ کو ثابت کرنا جو کہ آصف علی نے کر دکھایا۔
آصف علی اگر اسی طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے تو وہ وقت دور نہیں ہے جب یہ پاکستان کے سپر اسٹار بلکہ دنیائے کرکٹ کے سپر اسٹار بن جائیں گے۔ پاکستان کرکٹ میں کافی عرصے سے کوئی سپر اسٹار پیدا نہیں ہوا ہے یہ آصف کے لئے بہترین موقعہ ہے کہ اپنی پرفارمنس کو جاری رکھے اور دنیائے کرکٹ میں اپنا الگ مقام بنا لے۔ شاہد خان آفریدی، کرس گیل اور اے بی ڈیویلئرز کے بعد یہ جگہ خالی ہے۔ آصف اس جگہ سے صرف چند قدم کی دوری پر ہے، تھوڑی سی محنت، تھوڑی سی لگن، تھوڑی سی مستقل مزاجی اور تھوڑا سا صبر بس پھر کیا کامیابی آصف کے قدموں میں۔
بابر اعظم کی بات کریں تو کیا ہی کھلاڑی ہے ایک مکمل پیکیج۔ جس طرح ٹیم کو لے کر چل رہا ہے اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ کھیل سے پہلے ہر چیز پر باریکی سے نظر اور وقت پر فیصلہ لینے کی شاندار صلاحیت بابر اعظم کو دوسرے کھلاڑیوں سے ممتاز کرتی ہے۔ نوجوان ٹیم کی نوجوان قیادت اور ہر میچ کو اہم میچ سمجھنا بابر کی کپتانی کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کپتانی کے ساتھ اپنی پرفارمنس کو بھی وقت کے ساتھ بہتر بنانا اپنے آپ میں کمال ہے۔ بابر اعظم کے برعکس بھارتی کپتان کوہلی جب سے کپتان بنے ہیں ان کی پرفارمنس میں وہ بات نہیں رہی۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ وہ خود کپتانی سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں تاں کہ اپنی بیٹنگ پر فاکس کر سکیں۔ جہاں بابر نے کوہلی کے بہت سے ریکارڈ توڑے ہیں وہاں بطور کپتان ایک اور ریکارڈ بھی اپنے نام کرلیا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابراعظم نے بطور کپتان 26 مقابلوں میں ایک ہزار رنز بناکر ویرات کوہلی سے کم میچز میں ایک ہزار رنز بنانے کا اعزاز چھین لیا۔
محمد رضوان بھی عمدہ پرفارمنس کر رہے ہیں۔ رضوان تو ورلڈ کپ سے پہلے ہی اپنا لوہا منوا چکے تھے۔ ٹی ٹوئنٹ کے بہترین کھلاڑیوں میں اپنا شمار کروا کر رضوان نے ثابت کردیا کہ وہ کسی سے کم نہیں۔ شاہین آفریدی، حارث روُف نے شاندار بالنگ کا مظاہرہ کرکے دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ہے۔ یہ پوری ٹیم ہی اپنے آپ میں بے مثال اور باکمال ہے۔ شعیب اختر سینئر کھلاڑی ہونے کا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں اور ٹیم کی جیت میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ محمد حفیظ اب تک کچھ خاص نہیں کر سکے ہیں لیکن حفیظ جیسے سینئر کھلاڑی کے لئے ایک میچ ہی کافی ہے۔ وہ ایک بڑے میچ میں بڑی اننگ کھیل کر سارا حساب برابر کردیں گے۔