کراچی، کہانیوں سے پر شہر ہے، اور اکثر کہانیاں کرب ناک ہیں، مگر کہانی کار کے لیے فقط کرب بیان کرنا کافی نہیں۔ قطعی نہیں۔
فن کار تو وہ ہے، جو اس کی گہرائی میں اترے، اس کے اسباب تک رسائی پائے، بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو جوڑے، ان میں احساس کا طلسم پھونکے، اور پھر چابک دستی سے اسے فکشن کر دے۔
عثمان جامعی نے لہورنگ کراچی کو منظر کرنے کے لیے ماضی میں جست لگائی ہے، وہ سفر کرتا ہوں تہ تک پہنچا، اور ایک بیش قیمت موتی پاگیا۔
یہ کہانی کراچی کے کرب کو، نشیب و فراز کو منظر کرنے کا بھرپور عزم ہے۔
یوں لگتا ہے کہ عثمان جامعی نے یہ ناول لکھ کر اس شہر کی سیکڑوں خوابیدہ کہانیوں کو جگا دیا ہے۔
کاٹ دار نثر کے حامل ایک حساس شاعر سے ہمیں جس کتاب کی توقع تھی، وہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔
ناول نگار کون ہے؟
عثمان جامعی کا شمار کراچی کے سینیر قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی تخلیقی سفر میں سندھ، بالخصوص شہر کراچی کے المیوں کا درمندانہ اظہار ملتا ہے۔ اپنے تین عشروں پر محیط صحافتی سفر میں وہ متعدد اہم اخبارات و رسائل سے وابستہ رہے۔ میگزین صحافت میں انھوں نے نئی رجحانات متعارف کرائے۔ شاعری ان کا مستند حوالہ ہے، ان کا شعری مجموعہ میں بس ایک دیوار کے عنوان سے شایع ہوا، جسے ناقدین اور قارئین کی جانب سے قبولیت کی سند ملی۔ فکائیہ مضامین کہے بغیر کے نام سے کتابی صورت میں سامنے آئے۔
عثمان جامعی ۱۹۷۳ میں میرپور میں پیدا ہوئے، بعد ازاں کراچی منتقل ہوگئے، انھوں نے صحافت میں ماسٹرز کیا۔ یہ ان کا پہلا ناول ہے، جس کا فلیپ ممتاز فکشن نگار، سینیر صحافی اور سابق مدیر اخبار جہاں، اخلاق احمد نے لکھا ہے۔
کتاب پر معروف صحافی، مترجم اور نثر نگار، رانا محمد آصف کی رائے بھی درج ہے۔