آج ہم دنیا کے کسی بھی معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں ہر طرف ٹیکنالوجی کا دور نظر آتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا کام نہیں ہے جس کے لیے جدید ٹیکنالوجی والی مشینیں انسانی زندگی کو میسر نہ ہو۔ پہلے جو کام سالوں یا مہینوں میں ہوتے تھے اب وہ چند گھنٹوں میں ہو جاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کس وقت، کس طرح کرنا ہے، اس کا اختیار انسان کے پاس ہے۔
ہم نے اکثر سنا ہے کہ نسل نو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا منفی استعمال کر رہی ہے۔ بے راہ روی کی جانب گامزن ہے اور سوشل میڈیا کے باعث منفی سرگرمیوں اور رجحانات کا شکار ہو رہی ہے۔ جس کے باعث معاشرے میں یہ عام خیال پروان چڑھنے لگا ہے کہ سوشل میڈیا نوجوانوں کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ نوجوانوں پر جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات میں سے سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ یہ بے حیائی وعریانیت میں مبتلا ہو کر پھیلانے، فسق وفجور کے مناظر پیش کرنے کا سب سے بنیادی اور سستا ذریعہ بھی بنا ہے۔ اس کے ذریعہ اخلاقی و معاشرتی تباہی، نوجوان مرد وخواتین کی بے راہ روی وگمراہی، شرو فساد کی وادیوں میں ان کی ہلاکت اور اسلامی اقدار وپاکیزہ روایات سے ان کی لاتعلقی عام ہوتی جارہی ہے۔
کتنے ہی والدین ایسے ہیں جو اپنے نوجوان بچوں کو ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا سے منسلک کرنے کے بعد اپنی اولاد کی گمراہی کا رونا رورہے ہیں، اور کتنی نوجوان لڑکیاں ایسی ہیں جنہیں اس ٹیکنالوجی کے توسط سے سبزباغ دکھایا گیا اور وہ دھوکہ کھا کر اپنے گھروں سے بھاگ گئیں۔ کچھ عرصے تک دھوکہ بازوں کی مذموم خواہشات کا نشانہ بنیں، پھر بے یارومددگار چھوڑی گئیں، جس سے دنیا وآخرت دونوں کا نقصان انہیں اُٹھانا پڑا۔
مختلف سروے کے ذریعے یہ حقیقت سامنے آئی ہے بلکہ ہر معمولی سمجھ بوجھ والا انسان بھی اپنے اردگرد کے مشاہدے کے ذریعے یہ سمجھ سکتا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے صارفین میں زیادہ تر لوگ اِن کا اوسطاً 90% کے آس پاس بے مقصد اور بسا اوقات تباہ کن استعمال کرتے ہیں اور روزانہ کئی کئی گھنٹے عمرِ عزیز کے قیمتی اوقات کو ضائع کرتے ہیں، حالانکہ اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ ’’زندگی درحقیقت وقت ہی کا نام ہے جو کہ ہمیں پیدائش سے لے کر موت تک ملتا ہے‘‘ گویا کہ وقت کو ضائع کرنا زندگی کو ضائع کرنا ہے۔
سوشل میڈیا کے اس پھیلاؤ نے ایک اور بڑا مسئلہ یہ پیدا کیا ہے کہ دینی، سماجی، معاشرتی، اخلاقی، سائنسی، تاریخی اور مختلف میدانوں میں بزعم خود مصلحین اور مفکرین کا ایک بڑا جتھا اپنے خیال کے مطابق انسانیت کی اصلاح اور اس کو نفع پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پرکمربستہ ہو گیا ہے۔
سوشل میڈیائی مصلحین و مفکرین اکثر لغو قسم کی باتوں کو نقل کرنا اور دوسروں تک پہنچانا اپنی نہایت ہی اہم ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ بیہودہ باتوں کو اور ایسی باتوں کو جو لوگوں کی کردار کشی پر مشتمل ہو اور جن میں استہزا اور مذاق اڑایا گیا ہو، انہیں بہ زعمِ خود بغرض اصلاح نہایت ہی مخلصانہ طور پر لوگوں کے درمیان پھیلاتے ہیں۔ بد زبانی اور بیہودہ جملوں کا بے دریغ استعمال نہ صرف روا سمجھتے ہیں بلکہ انھیں اپنے لیے باعث عزت و فخر گردانتے ہیں۔ ان کی تحقیقی باتوں میں حقیقتاً تحقیق اور صحیح نتیجے پر پہنچنے کی سچی طلب اور جستجو کے بجائے بدگمانی کا عنصر بڑی وافر مقدار میں ہوتا ہے۔ ’’بغرض اصلاح‘‘ مختلف مواقع پر اپنی بات کی تائید و تصویب میں جھوٹ، دجل وفریب اور حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا بھی کام کرتے ہیں۔ اللہ نے بحیثیت انسان ہر شخص کو عزت و تکریم سے نوازا ہے۔ یہ اپنے اس طرح کے طرز عمل سے جہاں دوسروں کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہیں اپنی سطحیت اور گری ہوئی سوچ کا اظہار کرکے اپنے آپ کو بڑے پیمانے پر بے عزت کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ جو لوگ ملحد ہوں، دین اور اخلاق دونوں سے عاری ہوں یا مذہب کے پیروکار ہوں لیکن اخلاق سے عاری ہوں، ایسے لوگوں کے حق میں تو صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ عزوجل ان کے اندر دین و اخلاق پیدا کرے یا یہ کہ اخلاقی قدروں سے ان کی زندگی کو آراستہ کرے۔ اپنی باتوں اور کارکردگی کے ذریعے کسی کو بے عزت کرنے کی کوشش کرنا نہایت ہی مکروہ اور گھناؤنا عمل ہے۔ نیز جھوٹ، بدگمانی، دجل وفریب، استہزا، نامعقول رائے اورلغو قسم کی باتوں کے ذریعے دوسروں کو بے عزت کرنے کی کوشش درحقیقت اپنے آپ کو بھی بے عزت کرنے کو مستلزم ہے اور خود کو بے عزت کرنے کی کوشش عقل و شرع دونوں کے میزان میں ایک احمقانہ حرکت ہے۔
اگر ہم ایک مثالی معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کتاب وسنت، عقل سلیم اور اخلاق کے معیار کو سامنے رکھ کر یہ غور کریں کہ ہم سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کر رہے ہیں کہ غیراخلاقی جذبات کی تسکین کا سامان فراہم کرنے کی کوشش میں تو نہیں لگے ہوئے ہیں اور در حقیقت اصلاح کے پردے میں فساد پھیلانے کا بدترین کام تو سر انجام نہیں دے رہے ہیں۔