آج بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر اللہ خان کی برسی ہے۔ پاکستان کی قومی تاریخ کا جب بھی احاطہ کیا جائے گا تو جمہوریت کے لیے خدمات پر جس شخصیت کا نام سرفہرست دِکھائی دے گا، وہ بلاشک و شبہ نواب زادہ نصر اللہ خان ہی ہوں گے۔
نواب زادہ نصر اللہ خان ساری زندگی جمہوریت کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔ اس دوران آپ نے صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ مشکلات اور آلام آپ کی زندگی کے ساتھ رہے۔ دولت و حشمت کبھی بھی آپ کی ترجیح نہیں رہی۔ ساری زندگی سادگی سے گزاری۔ ہر کسی کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا آپ کا خصوصی وصف تھا۔ غرور و تکبر سے کوسوں دور تھے۔ آج نواب زادہ نصر اللہ خان کی 21ویں برسی منائی جارہی ہے۔ آپ ملکی تاریخ کے سینئر ترین سیاست داں رہے ہیں۔ آپ سیاست میں شرافت اور وضع داری کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ کالے پھندنے والی سرخ ترکی ٹوپی اور حقہ آپ کی خاص پہچان اور یہ آپ کے لیے جزو لازم تھے۔
جمہوریت کے رواج کے لیے آپ نے بے پناہ جدوجہد کی، آپ کا پورا سیاسی کیریئر اسی سے عبارت ہے، اسی وجہ سے آپ کو ”بابائے جمہوریت“ کہا جاتا ہے۔ آپ کی سیاست کا دورانیہ 70 برسوں سے زائد پر محیط ہے۔ اتنا طویل عرصہ سیاست کے میدان کارزار میں ملک سے تعلق رکھنے والے کسی اور سیاست دان نے نہیں گزارا۔ اعلیٰ سیاسی اقدار کے فروغ کے لیے آپ کی کوششیں کسی طور فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ حصول اقتدار آپ کا مطمع نظر کبھی بھی نہیں رہا۔ آپ سیاست کو عبادت تصور کرتے تھے۔
آپ 13 نومبر 1916 کو خان گڑھ، ڈسٹرکٹ مظفر گڑھ، جنوبی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنی سیاست کا آغاز 1933 میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی تشکیل کردہ مجلسِ احرارِ اسلام سے کیا، بعدازاں 1945 میں آپ آل انڈیا مجلس احرار اسلام کے سیکریٹری جنرل بنے، اس جماعت کا مقصد انگریزوں کو برصغیر سے دیس نکالا دینا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ ملک کی بانی جماعت مسلم لیگ سے منسلک ہوگئے۔ 1952 کے عام انتخابات میں پنجاب اسمبلی کی ایک نشست جیتی، 1962 میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ 1964 میں صدر ایوب کے خلاف انتخاب میں آپ نے فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ 1966 میں عوامی لیگ کے صدر بنے۔
سابق صدر ایئر مارشل ایوب خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے اپوزیشن اتحاد ڈیمو کریٹکنو ایکشن کمیٹی کی بھرپور معاونت کی۔ 1993 میں پھر قومی اسمبلی کے انتخاب میں سرخرو ہوئے۔ آپ کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما آپ کی بے پناہ عزت و احترام کیا کرتے تھے۔ وفات سے کچھ عرصہ پہلے ہی اے آر ڈی کے چیئرمین کی حیثیت سے ملک میں بحالئ جمہوریت کے لیے جنرل مشرف حکومت کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے تھے کہ دل کا دورہ پڑنے پر اسلام آباد کے ایک اسپتال میں داخل رہے، مگر زندگی نے وفا نہ کی اور 87 سال کی عمر میں 26 ستمبر 2003 کو رحلت فرما گئے۔ آپ کی وفات کو 21برس ہوچکے ہیں، آپ کے انتقال سے ملکی سیاست میں ایسا خلا پیدا ہوا کہ جو اَب تک پُر نہیں ہوسکا ہے۔
آپ جیسی وضع داری، اعلیٰ اخلاق، تدبر اور دانش ایسے اوصاف آج کے سیاست دانوں میں ڈھونڈے سے بھی دِکھائی نہیں دیتے۔ عوام کے لیے سیاست کرنے والے جانے کہاں چلے گئے ہیں۔ عوام اپنے حقیقی نمائندوں کو ترس اور مصائب و آلام کی بھٹی میں بُری طرح جل رہے ہیں۔ آج سیاست دانوں میں ایک دوسرے کے لیے برداشت کا مادّہ یکسر عنقا ہے۔ افسوس سیاسی مخالفین کے خلاف انتہائی نامناسب زبان کا استعمال عام ہوچکا۔ مخالفین کو طرح طرح کے معیوب القاب سے پکارا جاتا ہے، پھبتیاں کَسی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ اہل خاندان تک کی پگڑیاں اُچھالی جاتی ہیں۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر سیاسی مخالفین کے خلاف ہر درجہ گھٹیا پروپیگنڈے عام ہوچکے ہیں۔ ان دگرگوں حالات میں ملک کو نواب زادہ نصر اللہ ایسے مخلص سیاست دانوں کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس ہوتی ہے، جو ملک میں مثبت سیاست کے رجحان کو رواج دے سکیں۔
اُمید پہ دُنیا قائم ہے، ہمیں اور آپ کو اس حوالے سے اچھے کی توقع رکھنی چاہیے، یہ مٹی بڑی زرخیز ہے اور ان شاء اللہ اس میں آئندہ بھی عوام کا درد اپنے دلوں میں محسوس کرنے والی سیاسی شخصیات ضرور جنم لیں گی۔