برسلز: نیٹو کے سربراہی اجلاس میں چین کو مستقل سیکیورٹی چیلنج ٹھہرایا گیا ہے۔ چین کو دفاعی اتحاد نے اپنے نظام کے لیے بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے پہلی بار چین کے فوجی مقاصد کے بھرپور مقابلے کے عزم کا اظہار کیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ تمام رہنمائوں نے اتفاق کیا چین ہمارے لیے مستقل سیکیورٹی چیلنج ہے، وہ اصولوں پر مبنی عالمی نظام کی نفی کرنے کی کوشش کررہا ہے، بیجنگ کے تیزی کے ساتھ جوہری میزائل بنانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا، کانفرنس کے دوران 30 ممالک کے سربراہان نے چین کو مخالف کہنے سے گریز کیا، برسلز میں ہونے والے اس اجلاس میں 30 ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔
اجلاس سے قبل نیٹو سیکریٹری جنرل اور یورپی رہنمائوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے ٹرمپ کے رویے سے نالاں یورپی اتحادیوں کو بتایا کہ امریکا کے نزدیک یورپ کی حفاظت ایک مقدس فرض ہے، میں تمام یورپ کو بتانا چاہتا ہوں امریکا آپ کی حفاظت کے لیے موجود ہے۔ نیٹو ہمارے لیے بہت اہم ہے، امریکی صدر نے نیٹو اتحادیوں کو خبردار کیا کہ وہ چین اور روس کی جانب سے لاحق نئے چیلنجوں کے مطابق خود کو ڈھالیں۔ گزشتہ چند برسوں سے بتدریج اس بات کو تسلیم کیا جارہا ہے ہمیں نئے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ روس اور چین ہماری توقعات کے مطابق نہیں چل رہے۔
انہوں نے ایک مرتبہ پھر نیٹو معاہدے کے آرٹیکل پانچ پر زور دیا، جس کے تحت ایک دوسرے کا دفاع نیٹو ارکان کی ذمے داری ہے۔ کانفرنس کے دوران لیتھوانیا کے صدر نے روس کو روکنے کے لیے بالٹک ریاستوں میں مزید امریکی فوجی بلانے کا مطالبہ کردیا۔
بعدازاں سیکریٹری جنرل نیٹو اسٹولٹن برگ نے رپورٹروں سے گفتگو میں کہا کہ ہم نئی سرد جنگ کے دور میں داخل نہیں ہورہے، چین ہمارا حریف یا دشمن نہیں، تاہم ہمیں بطور اتحاد مل کر ایسے تمام سیکیورٹی چیلنجز کا سدباب کرنا ہے جو چین کی جانب سے پیدا ہورہے ہیں۔ چین کے بڑھتے فوجی اثررسوخ کو زائل کرنے کے لیے نیٹو کو تیار ہونا چاہیے، وہ ہمارے قریب آرہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نیٹو نے افغانستان سے فوجی مشن کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ سربراہی اجلاس سے افتتاحی خطاب میں نیٹو سیکریٹری جنرل نے فوجی مشن کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب صرف نیٹو کے سول منتظم کابل میں موجود ہوں گے، لیکن افغان سیکیورٹی اداروں کی فنڈنگ کا سلسلہ 2024 تک برقرار رہے گا۔