اردو نظم کے میدان کو ن۔م۔ راشد کے نام کے بغیر ادھورا تصور کیا جاتا ہے۔ ان کا اصل نام نذر محمد راشد تھا۔ ان کی پیدائش 1910 میں گوجرانوالا کے قصبے علی پور چٹھہ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم آبائی علاقے میں حاصل کرنے کے بعد وہ لاہور آگئے، جہاں انہوں نے گورنمنٹ کالج سے گریجویشن کیا۔ ان کی شخصیت کا واضح پہلو ان کا عوامی رویہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے متاثر رہے۔ ساتھ ہی وہ باقاعدہ وردی پہن کر اور ہاتھ میں بیلچہ اٹھا کر شہر کی سڑکوں پر مارچ کیا کرتے تھے۔
ن م راشد نے اردو شاعری کو روایتی تنگنا سے نکال کر عالمی دھارے میں ڈھالا۔ ان کی شاعری کے پہلہ ہی مجموعہ کلام "ماورا” انتہائی مقبول ہوا اور اس نے اردو شاعری میں انقلاب برپا کردیا۔ یہ مجموعہ 1942 میں شائع ہوا تھا۔ یہ انقلاب صرف آزاد نظم تک محدود نہیں، تھا، بلکہ پوری اردو نظم کا ماحول اس مثبت انقلاب سے متاثر ہوا اور یوں اردو نظم کو ایک نئی جہت ملی، جو اس سے قبل صرف انگریزی یا مغربی زبانوں تک ہی محدود تھی اور یہاں اسے نثری نظم کا نام دیا گیا۔ اس سے قبل تصدق حسین خالد بہت سی آزاد نظمیں تخلیق کرچکے تھے، تاہم راشد نے جو اسلوب اپنایا اور نظم کو جس تجرباتی انداز سے نئے قالب میں ڈھالا، وہ ن م راشد ہی کا خاصہ ہے۔ ن م راشد کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف خود نطم میں بڑے تجربات کیے بلکہ اپنے ان تجربات کے باعث اپنے پیچھے آنے والے شعرا کے لیے نظم اور خاص طور پر نثری نظم کا میدان صاف کیا اور اس راستے میں اردو کی مروجہ نظمیہ روایتوں کے خارزار کو اس طرح دور کیا کہ نے شعرا کو بھی نظم کا میدان باغ و بہار ملا اور یوں اردو نظم نے ایک نئی کروٹ لی۔ یہی وجہ ہے کہ ن م راشد کو اردو میں جدید نظم کا بانی کہا جاتا ہے۔
اردو نظم کے عام قارئین اکثر راشد اور فیض کی شاعری کا تقابل کرتے ہیں، لیکن انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دونوں شعرا اپنی اپنی جگہ ایک الگ اہمیت رکھتے ہیں، لیکن یہ بات مسلم ہے کہ ن م راشد کی نظموں میں موضوعاتی چناؤ اور اس کے برتنے کا معاملہ فیض کے مقابلے میں خاصا وسیع ہے۔ کچھ لوگ راشد کی نظم کو متوازی بھی قرار دیتے ہیں، حالانکہ دونوں ہی نے اپنے دور میں نظم کی مروجہ ہیئت میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔ ان دونوں شعرا نے نظم کے ابتدائی حصے یعنی موضوع کے تعارف، پھر تفصیل اور نظم کے آخر میں ماحصل جیسے فرسودہ فارمیٹ کو بدل کر نہ صرف ردیف و قافیے کی قید سے آزاد کیا، بلکہ نئے اور جدید موضوعات کو اپنی نظموں کا ماحصل بنایا۔ ن م راشد کی بیش تر نظمیں ایسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، جن کا تعلق قدامت اور جدت سے ہے اور جن موضوعات پر اس وقت تک کسی نے قلم نہیں اٹھایا تھا۔ ان کی یہ نظمیں اپنے قاری کو موضوعاتی مسائل سے متعلق غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔راشد کے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک اظہار کی نارسائی ہے۔ ان کی نظم "حسن کوزہ گر” کو ان کی شاہکار نظم مانا جاتا ہے۔ اس نظم میں انہوں نے ایک تخلیقی فن کار کا المیہ بیان کیا ہے۔ اس نظم کا مرکزی کردار کوزہ گری کی صلاحیت کھوچکا ہے اور اپنے اپنی محبوب کی ایک نگاہِ لطف کی تمنا لیے ہوئے ہے۔
راشد کے بڑے موضوعات میں سے ایک خلائی دور کے انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا زمانہ ہے جہاں روایتی تصورات جدید سائنسی اور فکری نظریات کی زد میں آ کر شکست و ریخت کا شکار ہو رہے ہیں اور بیسویں صدی کا انسان ان دونوں پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔ راشد کئی مقامات پر روایتی مذہبی خیالات کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بعض نظموں پر مذہبی حلقوں کی طرف سے خاصی لے دے ہوئی تھی۔ ن م راشد کے تین مجموعہ ہائے کلام ان کی زندگی میں شائع ہوئے۔ پہلے مجموعہ کلام کا نام ماورا، دوسرے کا نام ایران میں اجنبی جب کہ تیسرے کا نام لا=انسان ہے۔ ان کا چوتھا مجموعہ ان کی موت کے بعد شائع ہوا۔ اس مجوعے کا نام گمان کا ممکن ہے۔ اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے ن م راشد 9 اکتوبر 1975 کو لندن سے سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے۔