ماضی میں شیخ زید بن سلطان ٹرسٹ کے زیر انتظام جاری ہونے والے اخبارات میں روزنامہ مساوات اردو اور روزنامہ ہلال پاکستان سندھی وہ اخبارات تھے جو ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے ترجمان تصور کیے جاتے تھے لیکن حقیقت میں وہ مکمل عوامی نمائندگی کرنے والے اخبارات تھے کیونکہ ان اخبارات میں کام کرنے والے اس زمانے کے صحافی مکمل پیشہ ور اور جیّد قسم کے صحافی تھے جو حکومت کے اخبارات میں بھی بعض اوقات حکومت کے خلاف تھے۔ اس زمانے میں مساوات کے سائے تلے پیپلز پارٹی کا ہفتہ وار میگزین شائع ہوتا تھا نصرت۔ اس کے مدیر وہاب صدیقی ہوا کرتے تھے، جو بعد میں 1978 کے صحافتی تحریک میں بھی بہت سرگرم رہے اور گرفتار بھی ہوئے تھے۔
اسی زمانے کے سرگرم صحافی سردار قریشی نے سندھی زبان میں لکھی ہوئی اپنی کتاب “ آفتن جي دور میں(آفتوں کے دور میں) میں وہاب صدیقی کے بارے میں لکھا ہے۔ اسی زمانے کے روزنامہ مساوات کے چیف فوٹو گرافر زاہد حسین کا کہنا ہے کہ ستر کی دہائی میں وہاب صدیقی نامی دو صحافی ہوتے تھے۔ ایک وہاب صدیقی جنگ گروپ کے انگریزی ہفت روزہ “ میگ” کے ایڈیٹر تھے، جو مرتضی وہاب کے والد تھے۔ وہ بھی کراچی پریس کلب کے رکن تھے۔ لیکن میگ کے ایڈیٹر وہاب صدیقی صحافتی جدوجہد میں سرگرم نہیں رہے۔
دو سال قبل مرتضی وہاب نے کراچی پریس کلب میں منعقدہ صحافیوں کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ “انہوں نے تو بچپن میں کراچی پریس کلب کو دیکھا جب ان کے والد پریس کلب کے رکن تھے تو میں ایک صحافی کا بیٹا ہوں، مجھ سے زیادہ صحافیوں کے مسائل کون جانتا ہوگا۔“ آج ایک صحافی کا ہونہار بیٹا مرتضیٰ وہاب صدیقی کراچی کا ناظم ( ایڈمنسٹریٹر) بن گیا ہے۔
مرتضیٰ وہاب کی سیاست میں انٹری کی بڑی وجہ ان کی والدہ فوزیہ وہاب تھیں جن کو ہم نے کئی برسوں تک پیپلز پارٹی کا پرچم تھامے سیاست کرتے دیکھا۔ وہ بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کی کارکن تھیں۔ ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے فوزیہ وہاب نے جدوجہد کے کئی مراحل طے کیے۔ پارٹی عہدے سے قومی اسمبلی کی رکنیت تک وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہی رہیں۔ بیریسٹر مرتضیٰ وہاب کو سیاست میں اپنی والدہ کا تسلسل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ماما پارسی ہائی اسکول کے ہونہار طالب علم مرتضیٰ وہاب نے بیرسٹر ایٹ لا کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے اور باقاعدہ وکالت بھی ہے اور ماضی میں اپنے موجودہ سیاسی مخالفین کے مقدمے بھی عدالتوں میں لڑے ہیں۔ مرتضیٰ وہاب نے چھہ سات برس قبل عملی سیاست شروع کی اور تھوڑے ہی عرصے میں اپنے لئے بڑی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ وزیر اعلی سندھ کے مشیر رہے، پھر سینبٹر رہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں سندھ کے موجودہ گورنر عمران اسماعیل کے مقابلے میں سندھ اسمبلی کی نشست پر ساڑھے آٹھ ہزار ووٹ لے کر شکست سے دو چار ہوئے لیکن مراد علی شاہ کابینہ کے گذشتہ تین برسوں کے دوران سرگرم رکن رہے۔ غیر منتخب ہی سہی لیکن بحثیت مشیر کے اہم کام کیئے قانون، ماحولیات، پارلیمانی امور سے لے کر شہر کراچی کے ہر مسئلے پر مرتضی مرتضی کی پکار تھی۔ وہ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کے قریبی مشیر ہیں اور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی بھی ان پر نظر کرم ہے۔ اپنی شخصیت میں نرم مزاجی۔ ذہانت۔ اور سیاسی امور پر ہوم ورک کرکے بات کرنے کی وجہ سے معاشرے میں پسند کیئے جاتے ہیں۔ حالانکہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے مرتضی وہاب کے ایڈمنسٹریٹر بنتے ہی مخالفانہ بیان جاری کیا ہے لیکن ان دونوں جماعتوں کے کئی رہنما بھی مرتضی وہاب کے انتخاب کو بہترین چُوائس قرار دے رہے ہیں۔ شہر کراچی کے پڑھے لکھے حلقے اور دیگر سیاسی جماعتوں کی رائے بھی مرتضی وہاب کے لئے مثبت ہے۔ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر بننا اہمیت اور افادیت کے حوالے سے تو بڑا عہدہ ہے لیکن کراچی کے بے تحاشہ مسائل اس عہدے کے لئے اس سے بھی بڑا چیلنج ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں ہر طرح کے سماجی مسائل اور ہر قسم کی سماجی برائیاں موجود ہیں۔ بارشوں میں جس شہر کے نالے سیلاب لاتے ہوں اور آبادیاں ڈبوتے ہوں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا نام و نشان نہ ہو بزرگ اور خواتین بسوں اور چنگچی رکشائوں میں لٹکتے ہوں۔ وہ شہر جہاں غریب تو کیا امیر بھی پانی کی بوند کے لئے ترستے ہوں اور ٹینکرز مافیا ہائیڈ رینٹس مافیا سے مل کر روزانہ کروڑوں روپے عوام سے لوٹتے ہوں اس کراچی میں شہر کے غیر منتخب میئر ( ایڈمنسٹریٹر) کے پاس اختیار کتنے ہوں گے اور خزانہ کتنا ہوگا؟
دنیا کے دس بڑے شہروں میں شمار وہ شہر جہاں شہری اداروں کے درمیاں اختیارات کی جنگ اور حدود کی کشمکش جنگل کے قوانین کی طرح ہو یعنی کنٹومینٹس کا اپنا راج ہو تو ضلعی میونسپل کارپوریشنوں کی اپنی سرکار ہو۔ جہاں پر واٹر اور سیوریج بورڈ خود ہی ریاست کے مانند ہو اور جہاں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پورے شہر کو بلڈرز کے ساتھ مل کر کنٹرول کرتی ہو وہاں شہر کا نیا ایڈمنسٹریٹر کس حد تک ایڈمنسٹریشن میں با اختیار ہوگا؟ جہاں پر بجلی۔ گیس۔ ٹیلی فون۔ مواصلات وغیرہ پر تو ویسے ہی کسی کا بس نہ چلتا ہو اور ہر حکومت ان شعبہ جات میں بے بس نظر آتی ہو وہاں مرتضی وہاب کا بس کتنا چلتا ہوگا ؟ کیونکہ کراچی میں کئی معاملات میں تو خود سندھ سرکار ہی بے بس ہوتی ہے کئی معاملات میں وفاقی حکومت کو بھی سہاروں کی تلاش ہوتی ہے وہاں کراچی کے منتظم مرتضی وہاب کے لئے تو مشکلات اور بھی بڑھ جائیں کیونکہ رسہ کشی کا یہ کھیل کراچی والے برسوں سے دیکھتے آئے ہیں۔ وفاق۔ صوبہ۔ اور شہر۔ رسی کا ایک سِرا کبھی وفاق کے ہاتھ لگ جاتا ہے تو دوسرا سِرا صوبے کے ہاتھ کراچی بیچ میں تماشائی بن جاتا ہے۔ کبھی یوں بھی نظر آتا تھا کہ کراچی کی رسی نہ وفاق کے ہاتھ میں تھی نہ صوبے کے ہاتھ میں۔ ایسے لگتا تھا کہ کراچی کی رسی بوری بند لاشوں کی سلائی کے لئے استعمال ہوتی رہی۔ کراچی کی درد کہانی برسوں سے طویل ہوتی جا رہی ہے۔ بس درمیاں میں وقفے آتے رہتے ہیں۔ کبھی کسی “ لانگ بریک” کی وجہ سے ہم اس کہانی کا پچھلا حصہ بھول جاتے ہیں یہ ہی ہماری ہمت ہے کہ ہم پچھلے غم بھلا کر نئے غموں کی داستان لکھنا شروع کرتے ہیں۔ اب ایک صحافی کا وکیل بیٹا شہر کے درد کا درمان بن کر ہمارے سامنے آیا ہے دیکھتے ہیں کہ یہ وکیل کراچی کا کیس کس طرح لڑتا ہے اور برسوں سے شہر کی دیواروں پر نقش درد کی بھیانک تصویر کو مٹانے میں کس طرح کامیاب ہوتا ہے۔ آئیں ایک بار پھر بریک پر چلتے ہیں مرتضی وہاب کی کارکردگی دیکھنے کے لیے۔