اُمیدوں کا قتل

انجینئر بخت سید یوسف زئی
(engr.bakht@gmail.com)
(بریڈ فورڈ، انگلینڈ)

یہ برطانیہ کے حالیہ برسوں کا ایک نہایت سنجیدہ، پیچیدہ اور دل دہلا دینے والا امیگریشن فراڈ ہے، جس نے نہ صرف درجنوں افراد بلکہ سیکڑوں خاندانوں کی امیدوں، منصوبوں اور برسوں کی محنت کو ایک لمحے میں برباد کردیا۔ یہ کہانی وولورہیمپٹن کے ایک بظاہر معمولی مگر منظم دفتر سے شروع ہوتی ہے، جہاں ایک برطانوی نژاد پاکستانی شخص نے خود کو ریکروٹمنٹ اور امیگریشن کا ماہر ظاہر کرکے لوگوں کے اعتماد کو اپنی سب سے بڑی کمائی بنالیا۔
اس شخص نے انتہائی ہوشیاری سے ہیلتھ اینڈ کیئر ورکر ویزا کو اپنے فراڈ کی بنیاد بنایا۔ اس نے ایسا تاثر دیا کہ وہ برطانیہ کے کیئر سیکٹر میں مضبوط روابط رکھتا ہے اور براہِ راست کیئر ہومز کے لیے بھرتیاں کرتا ہے۔ دفتر کا ماحول، فائلوں کا ڈھیر، کمپیوٹرز اور پیشہ ورانہ گفتگو ہر آنے والے کو یہ یقین دلانے کے لیے کافی تھی کہ وہ ایک قانونی اور معتبر ادارے کے سامنے بیٹھا ہے۔
برطانیہ میں موجود بین الاقوامی طلبہ اس فراڈ کا سب سے آسان اور بڑا ہدف بنے۔ پوسٹ اسٹڈی ویزا کے اختتام کا خوف، محدود ملازمتیں، بڑھتے کرائے اور قانونی اسپانسرشپ کی شدید کمی نے ان نوجوانوں کو ذہنی طور پر بے حد کمزور کردیا تھا۔ ایسے حالات میں کوئی بھی ایسا شخص جو ’’گارنٹیڈ ویزا‘‘ کا دعویٰ کرے، ان کے لیے امید کا آخری سہارا بن جاتا ہے۔
متاثرین سے آٹھ ہزار سے لے کر بیس ہزار پاؤنڈ تک کی خطیر رقوم وصول کی گئیں۔ کئی طلبہ نے اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی اس ایک موقع پر لگادی، کچھ نے دوستوں اور رشتہ داروں سے قرض لیا جب کہ کچھ نے پاکستان میں اپنے خاندانوں پر مالی بوجھ ڈال کر یہ رقم فراہم کی۔ ہر شخص یہی سمجھتا رہا کہ یہ قربانی وقتی ہے اور اس کے بدلے ایک محفوظ مستقبل ملے گا۔
ریکروٹر کی جانب سے فراہم کی جانے والی دستاویزات بظاہر مکمل، مستند اور سرکاری انداز میں تیار کی گئی تھیں۔ سرٹیفکیٹ آف اسپانسرشپ، جاب آفر لیٹرز اور کیئر ہومز کے نام سے جاری خطوط میں سرکاری زبان، لوگوز اور حوالہ نمبر شامل تھے۔ عام طالب علم کے لیے یہ جانچنا قریباً ناممکن تھا کہ یہ سب کاغذات ایک بڑے دھوکے کا حصہ ہیں۔
صرف 6 ماہ کے قلیل عرصے میں 141 جعلی ویزا درخواستیں ہوم آفس کو جمع کروائی گئیں۔ یہ تعداد اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ محض اتفاق یا انفرادی غلطی نہیں بلکہ ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت چلنے والا فراڈ تھا۔ ہر مرحلہ باقاعدہ ترتیب کے ساتھ انجام دیا جاتا رہا۔
فراڈ کو مزید پھیلانے کے لیے کچھ متاثرہ طلبہ کو ہی اس نیٹ ورک کا حصہ بنالیا گیا۔ انہیں دوسرے طلبہ لانے پر کمیشن کی پیشکش کی گئی، جس کی وجہ سے کئی لوگ نادانستہ طور پر اس اسکیم کو آگے بڑھاتے چلے گئے۔ اس عمل نے نہ صرف فراڈ کو وسعت دی، بلکہ بعد میں متاثرین کے لیے شرمندگی اور پچھتاوے کا باعث بھی بنا۔
اسی دوران ریکروٹر کی ذاتی زندگی میں عیش و عشرت نمایاں طور پر بڑھنے لگی۔ سوشل میڈیا پر دبئی کے مہنگے ہوٹلز، لگژری گاڑیاں، برانڈڈ شاپنگ اور پُرتعیش سفروں کی تصاویر سامنے آئیں۔ اس وقت یہ تصاویر کامیابی کی علامت سمجھی گئیں مگر بعد میں یہی مناظر متاثرین کے لیے سب سے تلخ حقیقت بن گئے۔
چند ہفتوں بعد حالات نے نیا رُخ اختیار کیا جب ویزا ریجیکشن لیٹرز آنا شروع ہوئے۔ ابتدا میں چند درخواستوں کو تکنیکی مسئلہ کہہ کر نظرانداز کیا گیا اور متاثرین کو تسلی دی گئی کہ دوبارہ درخواست دی جائے گی مگر جیسے جیسے انکار کی تعداد بڑھتی گئی، تشویش نے جنم لینا شروع کیا۔
جب بڑی تعداد میں طلبہ کو ایک جیسی وجوہ کی بنیاد پر ویزا مسترد ہونے کے خطوط موصول ہوئے تو شکوک یقین میں بدلنے لگے۔ کچھ طلبہ نے خود تحقیق کا فیصلہ کیا اور ان کیئر ہومز سے رابطہ کیا، جن کے نام پر انہیں جاب آفر دی گئی تھی۔
یہاں سے سچ پوری طرح سامنے آیا۔ کیئر ہومز نے صاف انکار کردیا کہ نہ تو وہ ان طلبہ کو جانتے ہیں اور نہ ہی انہوں نے کسی قسم کی اسپانسرشپ جاری کی ہے۔ اس انکشاف نے متاثرین کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی اور انہیں احساس ہوا کہ وہ ایک بڑے دھوکے کا شکار ہوچکے ہیں۔
حقیقت سامنے آتے ہی ریکروٹر نے فوراً غائب ہونے کی حکمت عملی اپنائی۔ فون نمبر بند ہوگئے، ای میلز کا کوئی جواب نہ آیا اور وولورہیمپٹن کا دفتر اچانک خالی کردیا گیا۔ بینک اکاؤنٹس سے رقوم نکال لی گئیں اور ہر رابطہ منقطع ہوگیا۔
متاثرین جب دفتر پہنچے تو بند دروازوں اور خاموشی کے سوا کچھ نہ ملا۔ وہی جگہ جو کبھی امیدوں کا مرکز تھی، اب مایوسی اور بے بسی کی علامت بن چکی تھی۔ کئی افراد وہیں کھڑے ہوکر رو پڑے، کیونکہ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب آگے کیا ہوگا۔
اس کے بعد متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔ ان کا امیگریشن اسٹیٹس خطرے میں پڑ گیا اور وہ اس خوف میں مبتلا ہوگئے کہ اگر انہوں نے حکام سے رجوع کیا تو انہیں غیر قانونی قرار دے کر ملک بدر کردیا جائے گا۔ یہی خوف انہیں طویل عرصے تک خاموش رکھتا رہا۔
بالآخر متعدد متاثرین نے سکھ ایڈوائس سینٹر اور دیگر کمیونٹی تنظیموں سے رابطہ کیا۔ جب ایک جیسے الزامات اور تفصیلات سامنے آئیں تو یہ واضح ہوگیا کہ معاملہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی فراڈ ہے۔ کمیونٹی سطح پر وارننگز پھیلنے لگیں۔
یہ کیس اس وقت قومی توجہ کا مرکز بنا جب بی بی سی نے اس اسکینڈل کی باقاعدہ تفتیش شروع کی۔ متاثرین کے انٹرویوز، مالی ریکارڈز اور جعلی دستاویزات نے ثابت کیا کہ ایک ملین پاؤنڈ سے زائد رقم اس فراڈ کے ذریعے حاصل کی گئی تھی۔
تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مرکزی ملزم برطانیہ چھوڑ کر پاکستان فرار ہوچکا ہے۔ اس نے بروقت ملک چھوڑ کر خود کو قانونی کارروائی سے بچا لیا اور رقم ایسے طریقوں سے منتقل کی جن کا سراغ لگانا مشکل ہوگیا۔
حیران کن طور پر اتنے بڑے مالی اور انسانی نقصان کے باوجود نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی، نہ مقدمہ عدالت تک پہنچا اور نہ ہی حوالگی کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر آئی۔ سرکاری بیانات ضرور دیے گئے، مگر عملی اقدامات انتہائی محدود رہے۔
یہ واقعہ برطانوی ہوم آفس کے امیگریشن اور اسپانسرشپ سسٹم میں موجود سنگین خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ نگرانی کی کمی، جعلی اسپانسرشپس کی بروقت جانچ نہ ہونا اور متاثرین کے تحفظ کے فقدان نے اس فراڈ کو ممکن بنایا۔
آج بھی درجنوں متاثرہ طلبہ غیر یقینی مستقبل، شدید مالی دباؤ اور ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ کئی لوگ قانونی حیثیت کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں جب کہ ان کے خاندان پاکستان اور دیگر ممالک میں قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب، اس فراڈ کا مرکزی کردار آزاد زندگی گزار رہا ہے، جو انصاف کے نظام پر ایک گہرا سوالیہ نشان ہے۔ متاثرین کے لیے یہ حقیقت سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے کہ ان کی بربادی کے باوجود مجرم کو کوئی سزا نہیں ملی۔
یہ کیس محض ایک ملین پاؤنڈ کے فراڈ کی کہانی نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کی ناکامی کی علامت ہے جو کمزور اور مجبور لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ ویزا ایمپائر تو بکھر گیا، مگر اس کے اثرات آج بھی زندہ ہیں اور یہ سوال برقرار ہے کہ کیا کبھی اس جرم کا حقیقی احتساب ہوسکے گا یا یہ کہانی بھی بے نتیجہ فائلوں میں دفن ہوجائے گی۔

FraudImagirationMurder of HopesUK