رمضان جیسے ہی ختم ہونے والے ہوتے ہیں- ہم فوراً بھاگتے ہیں شاپنگ کرنےکے لیے کہ ہم کپڑے جوتے چوڑیاں گھڑیاں سب خرید لیں اور سب سے اچھے بس ہم لگیں۔ کیا ہم نے کبھی ان غریب لوگوں کے بارے میں سوچا ہے جو ہمارے ارد گرد ہوتے ہیں؟ وہ بھی عید کے اتنے ہی حق دار ہیں جتنے ہم ہیں۔ جب ہم بڑے بڑے شاپنگ مالز سے شاپنگ بیگز لے کر نکلتے ہیں سب کو نظر انداز کرتے ہوئے تو وہاں مانگنے والے ہزاروں بچے گھوم رہے ہوتے ہیں اور وہ آپ کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ جتنے خوش عید کے لیے یہ ہیں ہم بھی نئے کپڑے پہنے اور عید کی خوشیاں بانٹے۔
عیدالفطر ہو یا عیدالاضحیٰ، دونوں پر غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ غریب پرانے دور میں بھی کپڑوں سے محروم تھا اور اب بھی یہی صورتحال ہے۔ آج بھی غریب دو وقت تو کیا، ایک وقت کے کھانے کو بھی ترستا ہے
پاکستان میں لاکھوں نہیں کروڑوں غریب، یتیم ،معصوم بچے اسکول جانے اور کھیلنے کودنے کی عمر میں مزدوری کرتے ہیں۔6 سے 14 سال کے یہ معصوم پھول ہوٹلوں، ورکشاپز، شاپنگ پلازوں، لوگوں کے گھروں، سڑکوں، زیرتعمیر عمارتوں پر مزدوری کرتے ہیں اور کئی لاکھ بچے بھیک بھی مانگتے ہیں۔
لیکن یہ عید کے دن بھی اسی عام دن کی طرح گزارتے ہیں جسے روز کا عام دن ہو ہم عید کے دن گھومنے نکلتے ہیں یہ اپنے کام پر کیونکہ ان کو کما کے گھر لے کر جانا ہے- پچھلےایک سال سے دنیا میں کرونا کا راج ہے اور اس ہی کی بنا پر مسلسل لاک ڈاون لگا ہوا ہے۔ اس مرتبہ چونکہ کورونا کی بھیانک وباء اور مہنگائی کی لہر ہے جس نے نہ صرف نچلے طبقے کو بلکہ درمیانی طبقے کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔
روز کمانے کھانے والے کس اذیت میں وقت گزارتے ہونگے کہ پتہ نہیں آج کھانا کھا بھی سکھینگے کہ نہیں انسان تو انسان کو بھول جاتا ہے مگر میرا رب انسانوں کو کبھی نہیں بھولتا رمضان میں فطرانہ زکوۃ دینا اس لیے ضروری ہے کی غریب بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکے سوچے اگر وقت سے پہلے ہم فطرانہ ادا کر دیں تو لاکھوں گھروں میں عید کی خوشیاں داخل ہوسکے۔