اسٹریس ایک حقیقت ہے، ذہن میں ہونے والی کیمیائی تبدیلیاں ہمارے جسم پر اثرات مرتب کرتی ہیں، جس کی سائنسی بنیادوں پر پیمائش کی جاسکتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار Learning اور Personality development کے میدان میں سرگرم معروف ٹرینر محمد شاہ نواز نے کیا۔
اس روز موسم گرم تھا۔ ہمیں ایک درخت کی چھاؤں میسر تھِی، ہم چائے کی چسکیاں لے رہے تھے اور شاخوں میں کوئل کوک رہی تھی۔
محمد شاہ نواز نے کہا کہ سر درد کی اقسام میں ایک قسم کا براہ راست تعلق ڈیپریشن اور اسٹریس سے ہے، ذہنی دباؤ دل کی دھڑکن پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور اگر ایک انسان بھی اس مسئلے کا اظہار کرتا ہے، تو ہمیں اسے سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
ان کے مطابق اسٹریس مکمل اظہار سے پہلے پیغامات بھیجتا ہے۔ اس کا گہرا تعلق خود کلامی یا Self Talk سے ہے، ہم جو امیدیں اور توقعات رکھتے ہیں، وہ پوری نہِیں ہوتیں، تو ہم ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ اس وقت ہماری سوچ ہماری کیفیت کا تعین کرتی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں، کوئی بات نہیں، میں آج ناکام ہوگیا، کل اپنا مقصد حاصل کر لوں گا اس طرح آپ اسٹریس کے جال سے نکل آتے ہیں۔
شاہ نواز، جو انگریزی ادب و لسانیات میں ماسٹرز ہیں، این ایل پی یعنی
Neuro-linguistic programming پر بھی گرفت رکھتے ہیں اور اس کے پریکٹشنر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا ذہن مسلسل سوالات کرتا ہے، جب ہم کہتے ہیں، میں یہ کام نہیں کرسکتا، تو وہ مستقبل میں اسے نہ کرنے کی وجوہات تلاش کرنے لگتا ہے، اور جب کہتے ہیں، ہم یہ کرسکتے ہیں، تو ذہن یہ جواب تلاش کرنے لگتا ہے کہ ہم ایسا کیسے کرسکتے ہیں۔ تو سوالات اہم ہیں۔ پھر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا معاملہ ہے، ناکامی کی صورت آپ چلو، کوئی بات نہیں کہہ کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔
ادھر وہ ملٹن کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ دماغ تو اپنی جگہ پر رہتا ہے، مگر یہیں رہتے ہوئے وہ جنت کو جہنم اور جہنم کو جنت بنا سکتا ہے۔ ذہنی دباؤ اسٹیٹ آف مائنڈ کی وجہ سے ہے، اگر ہم اسے سوئچ کرنا سیکھ لیں، تو مسائل تو موجود رہیں گے، مگر ان کی شدت کم ہوجائے گی۔
جب ذہنی دباؤ کا شکار ہوں، تو کیا کیا جائے؟
وہ تخیل کی قوت استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اسٹریس میں وہ ایک خوب صورت، فطرت کے رنگوں سے رنگی تصویر بنانے کا مشورہ دیتے ہیں، جہاں خاموشی ہو، سکون ہو۔
ہم نے کہا، لیکن یہ راحت تو فقط تخیلاقی قرار پائے گی، تو وہ کہنے لگے، بالکل، لیکن اسی طرح ہمارے درد، ہماری پریشانیاں بھی اکثر تخیلاتی ہی ہوتی ہیں۔ اور یہی وہ نکتہ ہے، جس پر وہ زور دیتے ہیں۔
کام یابی کیا ہے؟
ان کے مطابق کام یابی کی ہر شخص اپنے الفاظ میں، اپنے فہم کے مطابق تعریف کرتا ہے۔ ان کے نزدیک اصل شے مقصد ہے، آپ زندگی سے کیا چاہتے ہیں، آپ کی کہانی کا آخری باب اہم ہے، اس سے آپ کی کہانی کا تعین ہوگا، جوانی کی کام یابی سے زیادہ اہم مکمل زندگی میں حاصل ہونے والی کام یابی ہے۔ تو ان پر توجہ مرکوز رکھیں۔
محمد شاہ نواز انگریزی ادب و لسانیات کے انسٹرکٹر ہیں، مختلف یونیورسٹیز سے وہ بہ طور وزیٹنگ فیکلٹی وابستہ ہیں۔ Learning کے موضوع پر وہ ایک امریکی ادارے سے سرٹیفائیڈ ٹریننر ہیں۔ جیلوں میں، پولیس اہل کاروں کے لیے ورک شاپس کر چکے ہیں۔