مفتی محمد شفیعؒ کی شخصیت اور کردار سے کون ہے جو واقف نہیں۔ مفتی اعظم ہند رہنے والے مفتی محمد شفیع ہندوستان کے ضلع سہارنپور کے علاقے دیوبند میں 20 شعبان المعظم 1314ھ مطابق جنوری 1897 پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام محمد یاسین تھا۔ مولانا محمد یاسین حافظِ قرآن اور عالمِ دین تھے۔
حضور اکرم ﷺ سے مفتی محمد شفیعؒ کی محبت کے ساتھ ساتھ عقیدت و احترام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب وہ مدینہ طیبہ جاتے تو کبھی روضۂ اقدس كی جالیوں تک پہنچ نہ پاتے، بلکہ جالیوں كے سامنے ستون سے لگ كر كھڑے ہو جاتے۔ وہاں اگر كوئی اور كھڑا ہوتا تو اس كی اوٹ میں كھڑے ہو جاتے۔ ہمیشہ احترام اور عشق رسول ﷺ كے جذبے كے تحت روضۂ رسول ﷺكی حاضری كے آداب كو ہمیشہ ملحوظ ركھتے۔ ان کی سیرت نگاری اور سیرتِ طیہ سے متعل خطابات ان کی رسولِ اکرم ﷺ سے والہانہ عقیدت کے عکاس ہیں۔ ان کی تحریر بے ساختہ اور سلیس ہے۔ انہوںنے جس مسئلے پر قلم اٹھایا اسے عام فہم انداز میں یوں بیان کردیا کہ اس سے عام قاری بھی بھرپور استفادہ کرلے۔
مفتی محمد شفیع ؒ نہ صرف سچے عاشقِ رسول تھے، بلکہ ناموس رسالت پر انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان میں تحفظ ختم نبوت میں بڑا اہم کردار اداکیا۔ انہوں نے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ سیرتِ طیبہ کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ ان کی لکھی گئی سیرت سے متعلق تمام تحاریر سیرتِ طیبہ کی حقیقی آئینہ دار لیکن لفاظی سے مبرا ہیں۔ آپ کی تحریر کردہ سیرت کی کتاب "سیرتِ ختم الانبیاء” کو پاکستان میں دینی تعلیم کے بورڈ وفاق المدارس پاکستان نے بھی اپنے نصاب کا حصہ بنایا ہے۔
سیرتِ پاک ﷺ سے متعلق ان کی مشہور تصنیف ختم النبوۃ فی القرآن ایک سو ایک ایسی قرآنی آیات سے مزین کتاب ہے، جس میں ختمِ نبوت کے مسئلے کو ہر پہلو سے انتہائی واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ختم نبوت سے متعلق مسائل كو قرآن كریم كی آیات سے اجاگر کیا گیا ہے تاكہ مسئلہ كا قطعی اور واضح ثبوت قرآنی آیات سے سامنے لا کر ختم نبوت کے منکرین کے باطل خیالات کو رد کیا جاسکے۔
مفتی محمد شفیعؒ نے ختم نبوت سے متعلق ایک اور کتاب میں تالیف کرکے ختم نبوت کے منکرین کے دلائل کو قرآن و حدیث اور اجماع امت کی روشنی میں اس طرح رد کیا گیا ہے کہ جس سے فرار ممکن نہیں ہے، ساتھ ہی یہ دلائل ہر شخص کے لیے قابلِ قبول ہیں۔
مولانا انور شاہ كشمیری اپنی اس كتاب كے فوائد كا تذكرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں
"وهاك رسالة تفسيرية حديثية كلامية فقهية، وبعد ذلك كلّه أدبية يسري ألفاظها سراية الروح في البدن، ويقع في قلب المؤمن كحلاوة الإيمان، ويجري في العروق كمحض اللبن"
ترجمہ: "آپ كےسامنے یہ رسالہ پیش خدمت ہے، جو (انقطاعِ نبوت اور ردِ قادیانیت كے) تفسیری، حدیثی، كلامی اور فقہی دلائل پر مشتمل ہے، مزید یہ رسالہ ایک ادبی شہ پارہ ہےجس كے الفاظ دل ودماغ میں یوں سرایت كرجاتے ہیں جیسے بدن میں روح سرایت كرجاتی ہے اور یوں فرحت محسوس ہوتی ہے جیسے مومن كے دل میں حلاوتِ ایمانی كامزہ محسوس ہوتا ہے اور اس كے اثرات رگوں میں دوڑنے لگتے ہیں۔”
مفتی محمد شفیع کی دیگر صانیف میں ختم النبوۃ فی الحدیث، جوامع الکلم، ، آداب النبی ﷺ، تنقیح الکلام فی احکام الصلاۃ والسلام شامل ہیں۔ آداب النبی ﷺ میں حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ كے اخلاق حمیدہ اور ومعجزات كو اس کتاب میں اختصار كیساتھ جمع کیا گیا ہے۔ مفتی محمدشفیعؒ ؒکے ایک مختصر رسالے "سیرت خاتم الابنیاء” كی اشاعت ایک ماہانہ جریدے میں قسط وار شائع ہونا شروع ہوئی، لیكن بعض وجوہ کی بنا پر اس جریدے کی اشاعت كا سلسلہ بند ہوگیا۔ اس کے بیس سال بعد مفتی محمد شفیع نے امام غزالی كے مشہور رسالے "آداب النبیﷺ” كا سلیس ترجمہ اور ضروری تشریح تحریر کیا۔
مفتی محمد شفیعؒ کی ایک اور تالیف "ذکر اللہ اور فضائل و مسائلِ درود و سلام” بھی ہے، جو انہوں نے مسلمانوں کی زبوں حالی سے متاثر ہوکر لکھی تھی۔ اس کتاب سے ذكر اللہ كے فضائل اور درود شریف كی اہمیت اور مقام کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
مفتی محمدشفیعؒ نے ایک انتہائی مختصر مگر جامع كتاب لکھی جس میں تمام ضروری اور اہم واقعات كے ساتھ بہت سے معركۃالآراء مسائل مثلاً تعدد ازواج ،جہاد اور واقعۂ معراج وغیرہ پر مخالفین كےاعتراضات وشبہات كےمدلل اور شافی جوابات دئے۔ اسی اختصار كی وجہ سے اس رسالے كا نام "اَو جُز السیر لخیر البشرﷺ” تجویز فرمایا اور ساتھ ہی اس بات كا بھی پورا اہتمام کیا كہ آنحضرت ﷺ كی پوری زندگی كا نقشہ معتبر كتب تاریخ وحدیث كے حوالے سے سامنے آئے۔حضور اكرمﷺ كی پیدائش سے وصال تک كے تمام واقعات اس رسالے میں سما سکیں۔
سیرتِ پاک ﷺ سے مفتی محمد شفیع کی عقیدت و محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سیرتِ پاک پر کتب کے ساتھ ساتھ متعدد نعتیںبھی لکھیں۔ انہوں نے ایک نعت روضہ ٔرسول ﷺ پر حاضری کے موقع پر بھی کہی۔ یہ نعت ان کےجذبات کی بہترین عکاس ہے۔ کےبھی حامل تھے۔
مفتی محمد شفیعؒ نے نہ صرف دینی خدمات انجام دیں، بلکہ وہ تحریک پاکستان کے ایک اہم رہنما بھی تھے۔ وہ مولانا شبیر آحمد عثمانی کی دعوت پر اپنا آبائی وطن چھوڑ کر پاکستان کو اپنا نیا وطن بنایا۔ آپ کا شمار دارالعلوم دیوبند کے اہم اساتذہ میں ہوتا تھا۔ پاکستان آنے کے بعد انہوں نے پاکستان میں دستور سازی کے عمل میں بڑا اہم کردار ادا کیا اور قائد اعظم کے وعدوں کے مطابق پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے راہ ہموار کی۔ انہوں نے کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک بڑی دینی درسگاہ بھی قائم کی، جس کا نام انہوں نے جامع دارالعلوم کراچی رکھا۔ آج یہ دینی درسگاہ پاکستان میں دینی تعلیم کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
بے شمار دینی خدمات انجام دینے والے مفتی محمد شفیع پانچ اکتوبر 1976 کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی تدفین جامع دارالعلوم کراچی کے احاطے ہی میں عمل میں آئی۔