تحریر: تسمینہ فہد
جب میں اپنے معاشرے میں رہنے والے لوگوں پر نظر ڈالتی ہوں تو کئی سوال میرے ذہن میں جنم لیتے ہیں جن میں سب سے اہم سوال” تعلیم“ کے حوالے سے ہے۔ شاید تعلیم کندھوں پر بڑھتے ہوئے بوجھ کا نام ہے، شاید تعلیم انھی پرانی رٹی رٹائی ہوئی کتابوں کا نام ہے، شاید تعلیم ایک ریس ہے جس میں ہر انسان دوسرے انسان کو گرا کر خود آگے نکلنا چاہتا ہے، شاید تعلیم کی اہمیت صرف ایک کاغذ تک محدود ہے جسے ہم ”ڈگری“ کہتے ہیں۔
آخر ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جس کا مطلب جان ہی نہیں سکے۔ ہماری نظر میں جو لوگ اچھی انگریزی بولیں، اچھے کپڑے پہنیں وہی پڑھے لکھے سمجھے جاتے ہیں۔ آخر کیوں ہمارا ذہن ان باتوں کو تسلیم کرتا ہے۔ ہمیں تعلیم دی تو جاتی ہے پر ہمیں صحیح معنیٰ میں تعلیم کا مقصد اور مطلب نہیں سمجھایا جاتا۔ اگر ہم سے کوئی پوچھے، ہمارے لحاظ سے تعلیم کا اصل مقصد کیا ہے تو ہم کہیں گے ہمیں ڈاکٹر بننا ہے، انجینئر بننا ہے، وکیل بننا ہے اور پیسہ کمانا ہے پر کیا تعلیم کی اہمیت اور مقصد صرف ان چند الفاظ کے گرد گھومتی ہے۔ تعلیم صرف پیسہ کمانے کا نام نہیں، تعلیم صرف ڈگری یہ نوکری حاصل کرنے کا نام نہیں۔ ہماری اسی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی نے بلکل درست فرمایا ہے کہ ”جب تعلیم کا بنیادی مقصد نوکری کا حصول ہو تو معاشرے میں نوکر ہی پیدا ہوتے ہیں رہنما نہیں۔“ اور آج کل میرے معاشرے میں مجھے یہی باتیں دکھائی دیتی ہیں ۔
یہ افسوس کی بات ہے کہ جس کے پاس ڈگری ہے ہم اسے تعلیم یافتہ مانتے ہیں اور جس کے پاس ڈگری نہیں اسے جاہل مانتے ہیں پر، میرے خیال سے ہر وہ شخص پڑھا لکھا ہے جو صحیح ، غلط ،اچھے اور برے میں تمیز سمجھتا ہے کیونکہ، میں نے پڑھے لکھوں میں جاہل دیکھے ہیں اور جاہلوں میں پڑھے لکھے، ڈگری اور نوکری ہوتے ہوئے بھی انہیں بےایمان اور چور دیکھا جبکہ انہی جاہلوں کو ایماندار اور سچا پایا ۔ اگر تعلیم کے مفہوم کو غور سے سمجھنے کی کوشش کریں تو علم انسان کی تیسری آنکھ کے مانند دکھائی دیتی ہے. دو آنکھوں سے تو ہم دنیا کے خوبصورت مناظر دیکھتے ہیں پر علم کی آنکھ سے ہم کٹھن مرحلے عقل اور سمجھ سے پار کر جاتے ہیں علم جاہل اور پڑھے لکھے میں فرق کا نام ہرگز نہیں۔ میری نظر میں جاہل وہ ہے جو علم کے ہوتے ہوئے بھی ناانصافی کرے، اپنی صلاحیتوں کا ناجائز استعمال کرے۔ میری نظر میں وہ لوگ بھی لاعلمی اور لاشعوری کی فہرست میں آتے ہیں جو صرف درس دیتے ہیں پر عملاً وہ کچھ ایسا نہیں کرتے جس سے کوئی ان سے سیکھے۔
علم بغیر عمل کے وبال ہے اور عمل بغیر علم کے گمراہی ہے یعنی علم اورعمل دونوں ضروری ہیں، کوئی ایک کافی نہیں۔ ”علم اگر آنکھ ہے تو عمل اس کی بینائی ہے، علم اگر زندگی ہے تو عمل بیداری ہے، علم اگر تعلیم ہے تو عمل تربیت ہے، علم اگر پھول ہے تو عمل خوشبو ہے۔“ علم شعور ہے علم بنیادی طور پر صلاحیت، قابلیت اور دماغ میں وسعت اور کشادگی کا نام ہے پر یہ افسوس کی بات ہےکہ ہم نے نہ خود یہ باتیں جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی ہمیں کسی نے یہ باتیں بتانے کی زحمت کی۔