موہنجودڑوکودفن کردیں

ممتازعباس شگری

 

موہنجودڑوسکھرسے 80کلومیٹرجبکہ لاڑکانہ سے 20کلومیڑکے فاصلے  پر واہے، موہنجو دڑو کو 1922 سے 1933کے دوران آرکیالوجیکل سرو ے آف انڈیاکے ایک آفیسررکھال داس بندیوپادے نے دریافت کیا. موہنجو دڑواوروادی سندھ کی تہذیب کے دوسرے آثارکی کھدائی اورتحقیق کے کام کاآغازاسی ادارے کے ڈائریکٹرجنرل سرجان ہربرٹ مارشل کی زیرنگرانی شروع ہواتھا. اس کے آثارقدیمہ معاشی مساوات اورسماجی برابری پرمبنی معاشرے کی غمازی کرتے ہیں. موہنجودڑو انتہائی پکی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا شہرتھا، جس کے باسی، کہا جاتا ہے کہ، اشتراکی طرز زندگی بسرکرتے تھے. شہر میں مرکزی بازارموجود تھا. اجناس ذخیرہ کرنے اورگرم پانی کی مشترکہ سہولیات ہونے کے ساتھ ساتھ پانی کے نکاسی کاخاص انتظام بھی موجود تھا۔ شہرمیں پبلک ٹوائلٹس کی سہولت موجود تھی۔ موہنجودڑو میں باقاعدہ طورپرکالج کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، جس میں طلبہ کو باقاعددہ تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ کالج کے ساتھ بڑا کنواں موجود تھا اورکنوئیں کے ساتھ گھڑا رکھنے کا چبوتراتھا۔ انگریزآرکیالوجسٹ موہنجودڑوکا دس فیصدحصہ دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے، تاہم اس کے بعد ہم چھیاسی سال میں اب تک اس کا ایک فیصد حصہ بھی دریافت کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔

ہزاروں سال پہلے موہنجودڑومیں پبلک ٹوائلٹس کانظام موجودتھا لیکن ہم اکیسویں صدی میں بھی اس سہولت سے یکسرمحروم ہیں۔ آج ہزاروں سال بعد یہ قیمتی ورثہ ہمارے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ اس کی حالت بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے۔ حکومت اس پر توجہ دینے سے گریزکررہے ہیں،ہم اس عظیم ورثے پرایک روپے بھی خرچ کرنانہیں چاہتا،آپ المیہ ملاحظہ فرمائیں،1980میں یونیسکو کی طرف سے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قراردے کر فنڈز جاری کیے گئے۔ تاہم کافی عرصے سے یہ دنیا کا بڑا عظیم ثقافتی ورثہ بے توجہہی کا شکار ہے۔

موہنجودڑوکی تباہی کی بہت ساری وجوہات بتائی جاتی ہیں، لیکن میرے اندازے کے مطابق وہاں پرسیلاب، آفت اور زلزے کی شدت کی وجہ سے آبادی کو ٹھیس پہنچی اور وہ ختم ہوتی چلی گئی۔ وہاں پر سیلاب آنے کے آثار موجود تھے۔ موہنجودڑوکے میوزیم میں اس وقت کے لوگوں کی ہڈیاں، آوزار، زیورات اوربرتن رکھے گئے ہیں۔ اس سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ موہجوڈروکی تہذیب کتنی پرانی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بچوں کے کھلونے اوردیگراشیاء بھی موجودہیں۔ لیکن میوزیم ابھی حکومتی توجہ کا منتظر ہے۔

مجھے زندگی میں پہلی بارموہنجودڑودیکھنے کا موقع ملا۔ دوستوں کے ساتھ رات بارہ بجے کراچی سے نکلا۔ اگلے دن دس بجے منزل پرپہنچ گیا۔ میں زندگی میں دوسری باروہاں جانا بھی پسند نہیں کروں گا۔ اگرآپ بھی پہلی باردیکھ لیں تو شاید دوسری بار دیکھنا پسند نہیں کریں گے، کیوں؟ اس کیوں کاجوا ب آپ کوموہنجودڑوکی موجودہ حالت، سیاحوں کی بے حسی، انتظامیہ کی نا اہلی اورحکومت کی عدم دلچسپی کی صورت ملے گا۔ موہنجودڑوکو جس حالت میں دریافت کیا گیا تھا آج ہماری نااہلی کی وجہ سے وہ مسخ ہورہاہے۔ حکومت ایک طرف سیاحت کے فروغ کی بات کرتی ہیے، دوسری طرف یہ عظیم دریافت توجہ کی منتظرہے۔ حکومت اگر واقعی سیاحت کے فروغ کے زریعے پاکستانی معیشت کو اوپر دیکھنا چاہتے ہیں، یا سیاحوں کو اپنی طرح راغب کرنا چاہتے ہیں تو موہنجودڑو جیسے مقامات کی دیکھ بال کرنی ہوگی۔ موہنجودڑومیں سیاحوں کیلئے نہ ٹوائلٹس کانظام ہے، نہ کھانے پینے کی بہتر سہولیات، اور جو ٹوائلٹس ہیں، ان میں سے آدھے ناقابلِ استعمال ہیں اورباقی ماندہ حصے میں سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ کھانے پینے کیلئے نہ کوئی بہترہوٹل کا انتظام ہے، نہ پینے کیلئے صاف پانی کی سہولت۔ یقین کریں جب تک آپ سیاحتی مقامات کی دیکھ بھال نہیں کریں گے، کوئی بھی وہاں قدم نہیں رکھے گا۔۔ اوراگر کوئی غلطی سے ان مقامات پرپہنچ بھی گیا توحکومت کی کارکردگی اورعدم دلچسپی سے دل برداشتہ ہوکردوبارہ مڑکرنہ دیکھنے کا عہد کرلے گا۔ موہنجودڑومیں تعینات عملہ بھی ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔ وہ بھی کسی جگے کوصاف کرنے کی زحمت تک نہیں کرتا، جگہ جگے پرکچرے کے ڈھیرموجود ہیں،لیکن وہ اسے صاف کرنے میں عارمحسوس کرتے ہیں۔

آج اس تاریخی ورثے اورانسانی اشتراکیت کی یادگارکی حالت بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے۔ عالمی برادری بھی موہنجودڑوکی حالت دیکھ کرتشویش کا شکار ہے۔ لیکن ہم ہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان چیزوں کی بالکل بھی قدر نہیں۔پاکستان بننے کے 72سال بعد بھی یہ عظیم ورثہ زبوں حالی کاشکارہے۔ اب اس باقیات کی حالت نہایت ہی نازک ہوچکی ہے۔ اس کی دیواروں کی نازک حالت دیکھ کرمجھے لگتاہے کہ یہ سرمایہ ایک زوردارطوفانی بارش کا مہمان ہے، جس دن ایک طوفانی بارش ہوگی یہ بھی صفحہ ہستی ہے مٹ جائیں گے اور ہم منہ دیکھتے فریاد کرتے رہ جائیں گے۔ حکومت وقت سے بس یہی التجا ہے کہ موہنجودڑوکی طرف بھی مڑکردیکھے اور اس کی بحالی کیلئے اقدامات کرے تاکہ ملکی سیاحت کوعروج اورپاکستان گرتی معیشت کواستحکام مل سکے، یا پھر جرمن سائنسدانوں کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اسے دفن ہی کردیں تاکہ یہ عظیم ورثہ محفوظ رہ سکے۔