یہ سوشل میڈیا کی صدی ہے، کاروبار، دوستیاں، نفرتیں اور مشاغل آن لائن ہوگئے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت اب کاروبار، دوستی، گپ شپ اور “وقت گزاری” کے لئے سوشل میڈیا پر مصروف رہتی ہے۔
یہاں ہماری نظروں سے روز مختلف قسم کی چیزیں گزرتی ہیں جس میں ایک توجہ طلب مسئلہ آن لائن کاروباروں میں کتابوں کی فروخت کے اشتہارات اور مطالعاتی گروپس میں کسی کتاب پر مباحثے کے لئے کی جانے والی پوسٹس ہیں۔ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی کاروباری فرد فروخت کرنے کے مقصد سے کسی کتاب کی تصویر پر مبنی پوسٹ یا کوئی عام صارف کسی گروپ یا پوسٹ میں اپنے دوستوں کو کوئی کتاب پڑھنے کے لئے تجویز کرتا ہے تو اس پر عجیب و غریب قسم کے کمنٹس کی بھرمار ہوجاتی ہے۔
اس میں اکثر کمنٹس ایسے ہوتے ہیں جن میں اس کتاب کو پڑھے بغیر اسے مسترد کیا جاتا ہے اور اس کی بجائے قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کی نصیحت کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم سب کونہ صرف قرآن مجید کا بھرپور مطالعہ اور اسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئیے بلکہ اسے اپنی زندگی کی پہلی ترجیحات میں سے ایک بنانی چاہئیے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم باقی تمام علوم اور اس کی کتابوں سے کنارہ
کشی اختیار کریں اور جدید علوم سے آنکھیں موڑ لیں۔
معیاری کتب کا مطالعہ انسان کی ذہنی افق کو وسیع، اسے زندگی کے مسائل کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور اس کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک بہترین، ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے کی تشکیل کے لئے لازمی ہے کہ کتب بینی کو فروغ دیا جائے اور اسے زندگی کا لازمی حصہ بنایا جائے۔
دیکھا جائے تو اس وقت ہمارے معاشرے کو جہالت، انتہاپسندی، مذہبی منافرت، عدم برداشت اور شدت پسندی نے جکڑا ہوا ہے جس کی بڑی وجوہات میں سے ایک علم کی کمی اور کتاب دشمنی ہے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے سے کتب بینی کی رہی سہی روایت بھی دم توڑ چکی ہے اور اب نوجوان نسل اپنا زیادہ تر وقت فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر گزارتی ہے۔
یہ بات ہمارے ہاں تک تو بالکل درست ہے لیکن مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ وہاں اب بھی کتب بینی کی روایت نہ صرف موجود ہے بلکہ مزید پروان چڑھ رہی ہے۔ مغرب کے سیاسی قائدین، سیکیورٹی اداروں سے وابستہ افراد ہوں یا کاروباری شخصیات، ان کی بڑی اکثریت نہ صرف وسیع مطالعہ رکھتے ہیں بلکہ سب اپنے اپنے میدانوں میں معیاری کتابیں بھی تحریر کرتے ہیں۔
ان کے ہاں ہر شعبے میں نہایت معیاری کتابیں لکھی جاتی ہیں جن میں بعض کتابیں تحریر کرنے پر برسہا برس اور کبھی کبھی دو دو دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ علم سے اس محبت اور اس کی فراوانی کی وجہ سے ان کے معاشرے آج ترقی یافتہ اور مہذب کہلائے جاتے ہیں۔
دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے اور ترقی یافتہ و مہذب معاشرے کی تشکیل کے لئے علم سے محبت اور اس کی قدر کرنا نہایت اہم ہیں۔ ہمیں چاہئیے کہ ہم سب انفرادی اور اجتماعی طور پر کتب بینی کو فروغ دینے کے لئے کام کریں اور نئی نسل کو مزید تباہی کی طرف جانے سے بچائیں۔
تعلیمی اداروں میں اساتذہ خود بھی وسیع مطالعے کی عادت ڈالیں اور اپنے طلباء کو بھی اس کی تلقین کریں۔ والدین کو چاہئیے کہ وہ اپنے بچوں کو تحائف کی صورت میں کتابیں دیں اور انھیں بچپن سے ہی مطالعے کی عادت ڈالیں۔ یہی کام دفاتر اور کام کرنے کی جگہوں پر بھی کیا جا سکتا ہے جہاں لوگ فارغ اوقات میں زیرمطالعہ کتابوں پر بحث کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ کتابیں شئیر کریں۔
ہمارے ہاں بچوں کو جس طرح کھلونوں کی جگہ موبائل فونز اور لیپ ٹاپس سے بہلانے کی روایت چل پڑی ہے یہ آگے چل کر علم سے مزید دوری اور کتاب دشمنی میں تبدیل ہوگی جس کے معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمیں اپنے کل کے لئے اپنا آج مثبت بنانا ہوگا اور ایک حقیقی تعلیم یافتہ معاشرے کی بنیاد ڈالنا ہوگی، بصورت دیگر تباہی ہماری منتظر ہے۔