کراچی: اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا آج یومِ وفات ہے۔ 15 فروری 1869ء کو غالب اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔
انہوں نے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کی اور جہاں وہ اپنے رنگِ سخن، اندازِ بیان کے سبب اپنے ہم عصر شعرا میں نمایاں ہوئے، وہیں ان کے اشعار ہر خاص و عام میں اس درجہ مقبول ہوئے کہ غالب آج بھی گویا زندہ ہیں۔ غالب کی شاعرانہ عظمت کا سبب ان کے کلام کی وہ سادگی ہے، جسے ان کے ندرتِ خیال نے نہایت دل نشیں بنادیا ہے۔
غالب بہ حیثیت نثرنگار بھی اردو ادب میں نہایت اہم مقام رکھتے ہیں، خاص طور پر ان کے خطوط کا شہرہ ہوتا ہے جس کے ذریعے انہوں نے نثر کو ایک نیا آہنگ اور اسلوب دیا۔ اس زمانے میں خطوط نگاری پُرتکلف القاب و آداب، مقفع اور مسجع زبان میں کی جاتی تھی، لیکن مرزا غالب نے اپنے دوستوں اور مختلف شخصیات کو لکھے گئے خطوط میں سادہ اور عام زبان کے ساتھ دل چسپ انداز اختیار کیا اور گویا ’’مراسلے کو مکالمہ بنادیا۔‘‘
مرزا غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ 13 برس کی عمر میں شادی ہوئی، شادی کے بعد غالب دلّی چلے آئے تھے جہاں اپنی ساری عمر بسر کی۔
غالب نے تنگ دستی اور عسرت میں زندگی گزاری، مگر نہایت خوددار تھے۔ کسی نہ کسی طرح بہادر شاہ ظفر کے دربار تک رسائی ہوئی اور ان کے استاد مقرر ہوئے۔ وظیفہ پایا اور دربار سے نجم الّدولہ، دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔
غدر کے بعد والیٔ رام پور کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں سے انہیں آخر عمر تک وظیفہ ملتا رہا۔ غالب کا کلام اس زمانے کی ہر مشہور مغنیہ نے گایا اور بعد کے برسوں میں کلاسیکی گائیکی سے جدید موسیقی تک غالب کی غزلیں ہر دور کے نام ور گلوکاروں نے گائیں۔ مرزا غالب نے دہلی میں وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔