ٹیکساس: چلنے پھرنے سے معذور افراد کے لیے ایک ایسی وہیل چیئر بنائی گئی ہے جو دماغ سے کنٹرول ہوتے ہوئے پُرہجوم کمرے میں کسی سے ٹکرائے بغیر اپنی منزل تک پہنچ سکتی ہے۔
اگرچہ یہ وہیل چیئر، فی الحال کسی مصروف سڑک اور ٹریفک میں نہیں چل سکتی تاہم اسے تین ایسے افراد پر آزمایا گیا ہے جو دونوں ہاتھوں اور پیروں سے معذور تھے اور کسی لیور کو ہلانے کے بھی قابل نہ تھے۔ انہیں وہیل چیئر پر بٹھا کر ایک ہال میں لایا گیا تو وہ دماغ کے سگنل سے وہ باآسانی وہیل چیئر چلانے لگے۔
پہیوں والی خودکار کرسی کو چلانے کے لیے دو طریقے استعمال کیے جاتے رہے ہیں، اول مریض کو اسکرین پر روشنی کا ایک نقطہ دیکھنے کو کہا جاتا ہے اور اس عمل کو اے آئی سے گزار کر وہیل چیئر کی موٹر چلتی ہے، لیکن اس طرح دیکھنے والے کو مسلسل نظر جمانی پڑتی ہے جو اکتاہٹ کی وجہ بنتی ہے۔ دوم دماغ میں الیکٹروڈ لگاکر براہِ راست دماغی سگنلوں کو پڑھا جاتا ہے اور مریض جو سوچتا ہے مشین اسے کرسی بھگانے میں استعمال کرتی ہے، لیکن اول اس میں تربیت اور دوم سرجری کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو تکلیف دہ عمل ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کے سائنس دان ہوزے میلان نے ایک تیسرا طریقہ دریافت کیا ہے۔ انہوں نے ایسے افراد بھرتی کیے، جن کے ہاتھ اور پیروں میں معمولی جنبش تھی یا بالکل ہی نہیں تھی۔ انہیں کمپیوٹر برین انٹرفیس ٹیکنالوجی کی بدولت تربیت دی گئی اور مائنڈ کنٹرول سے وہ آسانی سے وہیل چیئر چلانے کے قابل ہوگئے۔
ہر مریض کی ٹوپی میں 31 الیکٹروڈ نصب تھے جو صرف کھوپڑی کے اس حصے پر لگے تھے، جہاں حرکات و سکنات کے سگنل پیدا ہوتے ہیں اور اس میں کسی آپریشن یا جراحی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہماری کھوپڑی میں سینسری میٹر کارٹیکس اس میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے سگنل لیپ ٹاپ گئے جہاں انہیں بڑھاکر وہیل چیئر تک پہنچایا گیا۔
وہیل چیئر کو دائیں موڑنے کے لیے کہا گیا کہ وہ دونوں ہاتھوں کو ہلانے کا خیال دماغ میں لائیں اور بائیں جانب مڑنے کے لیے دونوں پیروں کو حرکت دینے کا سوچیں اور اگر ایسا نہیں کرتے تو وہیل چیئر دھیرے دھیرے خود بالکل سیدھی چلتی چلی جائے گی۔
شروع میں درستی کی شرح کم تھی، لیکن تربیت اور مزید سیشن کے بعد مریض وہیل چیئر کو 87 فیصد درستی سے چلانے کے قابل ہوگئے اور وہ بھی صرف اپنی سوچ کے بل بوتے پر آگے بڑھتے رہے۔
اگرچہ یہ کام ابتدائی مراحل میں لیکن مائنڈ کنٹرول وہیل چیئر کے ضمن میں ایک غیرمعمولی پیش رفت بھی ہے۔