اللہ قرآن میں فرماتا ہے: وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔
اس دنیا کا ہر انسان خواہ وہ کسی حال اور کسی شغل میں زندگی گزار رہا ہو وہ روزانہ اپنے نفس اور اپنی جان کا سودا کرتا ہے، پھر یا تو وہ اس کو نجات دلانے والا ہے یا ہلاک کرنے والا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی ایک مسلسل تجارت اور سوداگری ہے اگر وہ اللہ کی بندگی اور رضا طلبی والی ذندگی گزار رہا ہے تو اپنی ذات کے لۓ بڑی اچھی کماٸ کر رہا ہے اور اس کی نجات کا سامان فراہم کر رہا ہے۔
اس کے بر عکس وہ نفس پرستی اور خدافراموشی کی زندگی گزار رہا ہے تو وہ اپنی تباہی اور بربادی کما رہا ہے اور اپنی دوزخ بنا رہا ہے ۔ آجکل پوری دنیاایک ایسی وبا کی لپیٹ میں ہے جو نہ تو نظر آتی ہے اور نہ ہی ابھی تک اس کا کوٸی علاج سامنے آیا ہے احتیاط صرف لوگوں سےدوری اور تنہاٸ کو قرار دیا گیا ہے۔ بہت سے لوگ اس بیماری سے تو متاثر نہیں ہو رہے لیکن کیونکہ انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے اور کام کرنے کی اتنی عادت ہو گٸ ہے کہ یہ تنہاٸی اسے ایک نٸ بیماری کی طرف دھکیل رہی ہے جسے ”ذہنی دباٶ “ یعنی ”مینٹل اسٹریس“ کہا جاتا ہے۔
ذہنی دباٶ اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتا ہے جب مختلف قسم کی منفی سوچیں آپکے دماغ میں گردش کرنے لگتی ہیں ۔ دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں بہت سے لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں، لوگ بہت سی ایسی مشکلات کا شکار ہیں جن کا ذکر وہ عام لوگوں کے سامنے نہیں کر سکتے کیونکہ سفید پوشی کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ کچھ لوگ مستقل گھروں میں بند ہیں لوگوں سے دور ہیں جس کی وجہ سے تنہائی بری طرح ان کے دماغ پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ کچھ لوگ اپنے دوستوں سے دور ہونے کے باعث پریشان ہیں۔
اللہ تعالی نے انسان کو انسان کاساتھی بنایا ہے چاہے وہ کسی بھی روپ میں ہو لیکن اگر زندگی کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو جب اللہ بندے کو اپنے قریب لانا چاہتا ہے تو وہ اپنے قرب کے لئے اسے دنیاوی رنگ و تعلقات سے دور کر دیتا ہے۔ دیکھا جائے بظاہر تو یہ دوری ہوتی ہے لیکن اس میں ایک بہت بڑا راز اور بہت بڑی طاقت چھپی ہوئی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ نے خود فرما دیا کہ اطمینان صرف اسی کے ذکر میں ہے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی مرضی کےبغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا ۔ منفی سوچیں تب ہی ہمارے ذہن پر سوار ہوتی ہیں جب اس بات پر ہمارا یقین مضبوط نہ ہو۔ اللہ سے لو لگانے اور اس کے محبوب کےدربار میں اپنےمعاملات کو پیش کرنےکے بعد ہر طرح کے ذہنی دباٶ سے نکلا جا سکتا ہے کیونکہ وہی دربار ہے جہاں درباریوں کی فریادوں کو سنا جاتا ہے ان کو سلجھایا جاتا ہے۔ دنیاوی زندگی اور اس کی ضروریات وقتی ہیں جن کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہم ذہنی دباٶ کا شکار رہتے ہیں خود ہی اپنی ذندگی کو مشکل میں مبتلا کرتے ہیں۔
بالفرض ہم کسی پکنک پر جاتے ہیں تو اتنا ہی سامان لے کر جاتے ہیں جتنی ضرورت ہوتی ہے گھر کا سارا سامان نہیں لے کر جاتے یہی حساب دنیا کا بھی ہے اگر ہم اسے پکنک پواٸنٹ سے تشبیہہ دیں تو غلط نہ ہو گا جتنے سامان کی ضرورت ہے اتنا ہی رکھیں گے تو سکون حاصل کریں گے اگر پورے گھر کا سامان لے کر چلنے کی کوشش کریں گے تو مشکلات کا شکار رہیں گے۔ اللہ سے لو لگاٸیں گے تو پر سکون زندگی گزاریں گے اس سےدور ہو کر دنیا کی رنگینیوں میں گم ہو جاٸیں گے تو ہمیشہ ذہنی دباٶ اور زیادہ سے زیادہ کی چاہ میں رہے گی۔
اللہ تعالی کے حضور حاضر ہوں اس سے لو لگاٸیں تاکہ ہم وہ سوداگر اور تاجرکہلائے جاٸیں جو کہ جنت کی تجارت کرتا ہو نہ کہ اپنے نفس اور جان پر ظلم کر کے دوزخ کی آگ کماٸیں یہی ذہنی دباٶ سے نجات کا طریقہ ہے
بقول شاعر: حسن کردار سے نور مجسم ہو جا کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہو جائے