یہ ان دنوں کی بات ہے جب انتخابات کے بعد میاں نواز شریف کی سب سے طاقت ور حکومت بن چکی تھی کیونکہ 1997 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا ہوا تھا۔
2017 کے ایوان میں پیپلز پارٹی پورے ملک میں قومی اسمبلی کی صرف اٹھارہ نشستیں حاصل کر سکی تھی اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ ( ن) نے 135 نشستیں حاصل کی تھیں۔ انہوں نے دیگر اتحادیوں سے مل کر اپنی طاقت ور حکومت بنائی تھی۔ نواز شریف کی حکومت بنتے ہی ملک میں احتساب کا نعرہ گلی گلی میں بڑے زور سے گونجا۔ اس گونج کا سب سے بڑا نشانہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری بنے۔ سرے محل۔ وزیر اعظم ہاؤس میں گھوڑوں کے تانبیلے سے لے کر سوئس اکاؤنٹس تک سارے اسکینڈلز سرکاری میڈیا کے بدولت پاکستان کے اخبارات میں بڑی گرمجوشی کے ساتھ شایع ہو رہے تھے۔ آصف علی زرداری کو جیل سے بکتر بند گاڑی میں سٹی کورٹ لایا جاتا تھا۔ مجھے کورٹ رپورٹنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا کیونکہ میں سیاسی رپورٹنگ کرتا تھا لیکن دفتر کا حکم تھا کہ کسی بھی طرح کورٹ میں پیشی کے موقع پر آصف زرداری کا انٹرویو کیا جائے۔ کسی جونیئر رپورٹر کے لئے یہ بہت ہی مشکل ٹاسک تھا۔ اس سے بھی مشکل مسئلہ یہ تھا کہ سندھی کے سب سے بڑے جس اخبار کا میں رپورٹر تھا اس اخبار سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوران آصف علی زرداری کے تعلقات اچھے نہیں رہے تھے۔ انہی خراب تعلقات کی وجہ سے ایک بار بلاول ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران مجھے اور مرحوم یوسف خان کو بے نظیر بھٹو نے جھاڑ پلائی تھی جب ہم نے سندھ میں بد امنی کے بارے میں سوال پوچھے تھے۔ محترمہ کہنے لگیں مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو۔ جاؤ نظامی سے پوچھو۔ علی قاضی سے پوچھو جو ہمارے خلاف لکھتے تھے۔ یہ پریس کانفرنس بھی انہی دنوں میں ہوئی تھی جب نواز شریف حکومت بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر کے خلاف سیف الرحمان کے ذریعے اسکینڈلز منظر عام پر لا رہی تھی۔
دفتر نے جب کورٹ میں آصف زرداری کا انٹرویو کرنے کا حکم صادر فرمایا تو سب سے پہلے تو ایسے دو افراد سے رابطہ کیا جو آصف زرداری کے قریبی لوگ تھے، حالانکہ وہ کوئی پارٹی رہنما نہیں تھے۔ بتایا گیا کہ فلاں دن صبح نو بجے فلاں عدالت پہنچ جاؤں۔ تب میں لیاری ڈگری کالیج کے عقبی علاقے باوا پٹ میں رہتا تھا۔ سٹی کورٹ قریب ہونے کی وجہ سے میں جلدی پہنچ گیا تھا لیکن پتہ چلا کہ آصف زرداری کو صبح نو بجے سے قبل ہی بکتر بند گاڑی میں کورٹ لایا گیا۔ کورٹ کی عمارت میں بہت رش تھا لیکن دوسری منزل پر اس مقام پر بہت زیادہ رش تھا جہاں پر آصف زرداری سے ملاقاتی ملنے جارہے تھے۔ اسی طرف میں نے بھی رخ کیا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں چالیس پچاس لوگ موجود تھے ہر شخص آصف زرداری سے ملنا چاہتا تھا۔ نیٹ کی ایک کرسی پر سینٹر آصف زرداری بیٹھا تھا۔ قریب ہی بینچ پر تین چار دیگر افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ مشہور اخبار میں ہونے کی وجہ سے کافی لوگ جانتے تھے کہ رپورٹر ہوں۔ سو بنچ پر بیٹھے ہوئے ایک شخص کو بولا آپ اٹھ جاؤ مجھے وہاں بیٹھنے دو کہ میں دو چار سوال کر لوں۔ وہ شخص شاید میری مجبوری کو بھانپ چکا تھا اور بلا تکلف مجھے اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔ بیٹھتے ہی میں نے اپنا تعارف کرا دیا۔ مجھے خوف تھا کہ میرے اخبار کا نام سن کر وہ مجھے ڈانٹ لے گا، لیکن ایسا بلکل نہ ہوا۔ ہاتھ ملاتے ہوئے بولا سناؤ آپ کے قاضی صاحبان ( مالکان ) کے کیا حال ہیں؟ میں نے کہا سائیں سب ٹھیک ہے۔ بتا دیں جیل میں وقت کیسا گذر رہا ہے ؟ آصف زرداری کہنے لگا۔ “جیل بھی تو مردوں کے لئے بنی ہے نا؟ “ سائیں سختی ہے ؟ یہ میرا دوسرا سوال تھا۔ کہنے لگا کہ قاضیوں نے تمہیں مجھے ڈرانے کے لئے بھیجا ہے کیا ؟ اس کے بعد دو تین سیاسی سوالات پوچھے۔ کوئی سات آٹھ منٹ گفتگو کرنے کے لئے مل گئے تھے اور بہرحال خبر بن گئی۔ یہ میری آصف زرداری سے پہلی ملاقات تھی۔
سنہ 2010 میں کراچی پریس کلب کی گورننگ باڈی کے ارکان اور کچھ سینئر صحافیوں کو صدر مملکت آصف علی زرداری نے ملاقات کے لئے بلایا۔ تب میں کراچی پریس کلب کی گورننگ باڈی کا رکن تھا۔ کلب کی باڈی کے علاوہ شمیم احمد۔ صبیح الدین غوثی سمیت کچھ سینئرز کو مدعو کیا گیا تھا۔ بلاول ہاؤس کے لان میں شاہانہ تنبو کے چاروں اطراف ایئر کولر لگے ہوئے تھے۔ ہم سب وہیں صدر آصف زرداری کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ اچانک نمودار ہوا۔ ایک ایک فرد سے ہاتھ ملایا۔ پھر سامنے اسٹیج کی طرح سجی ہوئی کرسیوں کی قطار کے وسط میں بیٹھ گیا۔ یہ انفارمل میٹنگ تھی اس وجہ سے صوبائی حکومت کے حکام موجود نہیں تھے۔
بات چیت شروع ہوتے ہی انہوں شمیم احمد کے لئے الگ کرسی لگوا کر اپنے پاس بٹھایا۔ ڈان اخبار کے تب کے سینئر رپورٹر شمیم احمد ( مرحوم ) کی محترمہ بے نظیر بھٹو بھی بہت قدر کیا کرتی تھیں۔ پریس کلب کی باڈی نے اپنے معاملات رکھے جس کے لئے صدر مملکت نے آواز لگائی کہ ڈاکٹر فضل کہاں ہیں؟ سیکریٹری خزانہ اور صدر مملکت کے بہنوئی فضل اللہ پیچوہو کو بلایا گیا، جنہوں نے سارے معاملات کو نوٹس لیئے۔ جس کے بعد ہماری سیاسی گفتگو شروع ہوئی۔ ایک سوال میں نے بھی پوچھا وہ سوال کچھ اس طرح تھا۔ سر جب پیپلز پارٹی کی حکومت بن رہی تھی تو پوری پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنے کی مخالف تھی لیکن آپ کی ایسی کون سی مجبوری تھی کہ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کیا؟ چونکہ پوری گفتگو اردو میں چل رہی تھی تو میں نے بھی اردو میں سوال کیا تھا۔ زرداری نے سندھی میں مختصر جواب دیتے ہوئے کہا “سائیں میری جگہ ہوتے تو پتہ چلتا۔ اس ملاقات میں سب نے سوال پوچھے تھے لیکن سب کے انتہائی مختصر جوابات یا پھر ہنسی مذاق میں ٹال دینا، حالانکہ یہ آف دی ریکارڈ گفتگو تھی اور خبر صرف اتنی چلی تھی کہ صدر مملکت آصف علی زرداری سے کراچی پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کے وفد کی ملاقات۔ یہ آصف زرداری سے دوسری ملاقات تھی۔
کراچی پریس کلب کی روایت ہے کہ جب کسی مہمان کو میٹ دی پریس پروگرام میں بلایا جاتا ہے تو اس سے پہلے کلب کے کمیٹی روم میں میٹنگ ہوتی ہے۔ چائے بسکٹ سے تواضح کی جاتی ہے پھر میٹ دی پریس کو خطاب ہوتا ہے۔ اسی سال صدر مملکت آصف علی زرداری کراچی پریس کلب تشریف لائے. وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ۔ سندھ کابینہ کے بعض وزر سینٹر شیری رحمان شازیہ مری اور دیگر رہنما بھی ہمراہ تھے۔ پریس کلب کے صدر اور سیکریٹری نے کلب کی لیز کے مسئلے پر بریفنگ دیتے ہوئے گذارش کی کہ صدر مملکت کی حیثیت سے وہ پاک فوج کے سربراہ یا کوارٹر ماسٹر جنرل سے بات کریں تاکہ ہمیں پریس کلب کی ملکیت کا کینٹونمنٹ بورڈ سے لیز مل سکے۔ بعد ازاں صدر آصف زرداری نے میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے بھی یہ اعلان کیا تھا کہ پریس کلب کی لیز کی خاطر وہ آرمی چیف سے بات کریں گے۔ کلب کی لیز کا مسئلہ ہر دور میں اٹھتا رہا لیکن یہ مسئلہ آج تک حل نہیں ہو سکا تھا۔ لیکن یہ میری آصف زرداری سے تیسری ملاقات تھی۔
چند سال قبل یہ خبر آئی کہ آصف زرداری کی طبیعت بہت خراب ہے۔ انہیں کلفٹن میں ان کے دوست کے اسپتال لایا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما کے ہمراہ میں بھی ضیاۂ الدین اسپتال چلا گیا۔ انور مجید سمیت دیگر لوگ بھی اسپتال میں زیر علاج تھے۔ شرجیل میمن اور نادر مگسی سمیت متعدد رہنما اسپتال میں موجود تھے۔ انتہائی سخت سیکیورٹی میں آصف زرداری کو اسپتال لایا گیا اور انہیں اسٹریچر پر روم میں منتقل کیا گیا۔ وہاں بھی اتنا رش ہوگیا تھا کہ ملاقات۔ ممکن نہیں تھی۔ نہ کوئی بات چیت ممکن تھی اس لئے ہم وہاں سے نکل کر آگئے۔ آج کل آصف زرداری اپنے دوست ڈاکٹر عاصم کے اسی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ پیپلز پارٹی کے حلقے بتا رہے ہیں کہ ان کی طبیعت سخت ناساز ہے۔ ان کی صحتیابی کے لئے گذشتہ روز لیاری میں سابق سینٹر یوسف بلوچ نے اونٹوں کا صدقہ دیا ہے۔ حکومتی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ آصف زرداری پر نیب کے مزید مقدمات بن رہے ہیں اس وجہ سے آصف زرداری اسپتال داخل ہوا ہے۔ ابھی آج پھر نیب نے ایک مزید مقدمے میں تحقیقات شروع کردی ہے۔ زرداری نے ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ ان کی جگہ وزیر اعظم ہاؤس ہے یا پھر جیل ہے لیکن آج کل ان کا زیادہ وقت اسپتال میں گذرتا ہے۔