آج راشد منہاس شہید (نشان حیدر) کا 53 واں یوم شہادت منایا جارہا ہے۔ آئیے اُن کی زندگی کے ابتدائی حالات و واقعات پر مختصر سی نگاہ ڈالتے ہیں۔ راشد منہاس 17 فروری 1951 ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ سینٹ پیٹرک کالج سے تعلیم حاصل کی۔
پاک فضائیہ کے کم عمر ترین شہید پائلٹ آفیسر راشد منہاس کی ڈائری سے پتا چلتا ہے کہ 6ستمبر کی جنگ نے ان کے مقصد حیات کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ راشد نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ہر حال میں پاکستان ایئر فورس جوائن کریں گے۔ 16 سال کی عمر میں انہوں نے او لیول پاس کیا اورپھر جامعہ کراچی سے ملٹری اینڈ ایوی ایشن ہسٹری کی تعلیم حاصل کی تھی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان ایئرفورس میں شمولیت اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔
راشد منہاس شہید کے خاندان کے بہت سے افراد مسلح افواج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ راشد منہاس نے1968 میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کرلی۔ ان کو پاک فضائیہ میں سلیکٹ ہونے کے بعد ٹریننگ کے لیے کوہاٹ اور کچھ عرصہ بعد رسالپور بھیج دیا گیا۔ وہاں انہوں نے پاکستان ایئرفورس اکیڈمی سے فلائٹ کیڈٹ کی تربیت حاصل کی۔ 13 مارچ 1971 کو انہوں نے پاک فضائیہ میں کمیشن حاصل کیا۔
20 اگست 1971 کو راشد منہاس مسرور ایئربیس سے اپنی تیسری تنہا پرواز کے لیے T۔33جیٹ سے روانہ ہونے لگے تو اچانک ان کے انسٹرکٹر مطیع الرحمان نے انہیں رکنے کا اشارہ دیا اور طیارے میں سوار ہوگئے۔ حالانکہ ایسی پروازیں تنہا کی جاتی ہیں۔ ناصرف مطیع الرحمان طیارے میں سوار ہوئے بلکہ انہوں نے طیارہ خود کنٹرول کرنا شروع کردیا۔
خیر جب راشد منہاس نے محسوس کیا کہ مطیع الرحمان طیارے کو اڑا کر بھارت لے جانا چاہتے ہیں تو پاک افواج کے کم عمر ترین شہید راشد منہاس نے اس موقع پرپی اے ایف مسرور بیس میں صبح ساڑھے گیارہ بجے کے قریب رابطہ کیا اور طیارے کے اغوا ہونے سے متعلق آگاہ کیا۔ کنٹرول ٹاور پر نشر ہونے والا راشد منہاس شہید کا آخری پیغام، گواہ ہے کہ ان پیغامات کو نشر کرتے وقت وہ کسی سے دست و گریبان تھے، وہ گویا تھے۔
’’میں۔۔ میں طیارے کو دشمن کے ہاتھوں میں نہیں جانے دوں گا۔۔ آپ انسٹرکٹر کے۔۔ساتھیوں کا پتا چلوائیں۔۔‘‘
اُس وقت طیارہ بھارت کی سرحد سے 64 کلومیٹر دُور تھا۔ جب راشد منہاس شہید کو یقین ہوگیا کہ اب طیارے پر قابو پانا ان کے بس میں نہیں رہا تو ان کے سامنے دو راستے تھے۔ اول کہ طیارہ اغوا ہونے دیا جائے۔ یوں مطیع الرحمان جو پاکستان کے راز اپنے ساتھ لے جارہا تھا وہ دشمن کے ہاتھ لگ جاتے اور راشد منہاس قیدی بن جاتے۔ دوسرے راستے کے ذریعے پاکستان کے قیمتی راز کو دشمن کے ہاتھوں لگنے سے بچایا جاسکتا تھا اور یہ راستہ شہادت کا تھا۔
20 سال کے اس کم عمر ترین نشان حیدر یافتہ پائلٹ نے وطن سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے طیارے کا رخ زمین کی طرف کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے طیارہ گرکر تباہ ہوگیا۔اس وقت انڈین بارڈر سے 32میل کے فاصلے پر جہاز گر کر تباہ ہوا تھا۔
جس جگہ طیارہ گرا تھا ۔اسے اب’’ شہید ڈیرہ‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔ پہلے اس کا نام ’’جنڈے‘‘ تھا۔ یہ علاقہ کراچی سے شمال مشرق کی طرف دریائے سندھ کے کنارے تھوڑے فاصلے پر واقع ہے۔ قوم اس ہونہار فرزند کو سلام پیش کرتی ہے۔ جب تک ملک کے دفاع کرنے والے ایسے شاہین سلامت ہیں، دشمن اس ملک کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔
راشد منہاس شہید کی خدمات پر اُنہیں اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا گیا، وہ اعلیٰ ترین فوجی اعزاز حاصل کرنے والے مسلح افواج کے کم عمر ترین اور پاک فضائیہ کے واحد افسر ہیں۔ ’’نشانِ حیدر‘‘ پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔اور اس کے علاوہ اٹک میں قائم کامرہ ایئربیس کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا۔
راشد منہاس شہید کا آج یوم شہادت ہے۔ اس عظیم فرزند وطن کو قوم کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔