ابوجا: نائیجیریا کی اسلامی پولیس ’حسبہ‘ نے چند روز قبل 26 سالہ علیونا ادریس کو حراست میں لے لیا کیونکہ وہ سرِعام خود کو دو کروڑ نائیجیرین نائرا (83 لاکھ پاکستانی روپے) میں فروخت کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
علیونا ادریس کا کہنا تھا کہ وہ پیشے کے اعتبار سے درزی ہے لیکن اس نے طویل بے روزگاری اور معاشی بدحالی سے تنگ آکر یہ حرکت کی ہے۔
اپنی اور اپنے والدین کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے اس کی سمجھ میں یہی ایک طریقہ آیا کہ خود کو فروخت کردے، لہٰذا اس نے اپنے گلے میں ایک بڑا کارڈ بورڈ لٹکالیا، جس پر لکھا تھا کہ یہ آدمی دو کروڑ نائرا میں برائے فروخت ہے۔
حسبہ اسلامی پولیس کے مطابق، یہ نوجوان اس سے پہلے کدونا شہر میں خود کو فروخت کرنے کی کوشش کررہا تھا لیکن وہاں مطلوبہ گاہک نہ ملنے کی وجہ سے وہ نائیجیریا کے شہر ’کارو‘ میں آگیا۔
’’جی ہاں، ہم نے منگل کو اسے گرفتار کیا تھا اور پوری رات اپنے پاس رکھا،‘‘ حسبہ اسلامی پولیس کے سربراہ ہارون ابنِ سینا نے بی بی سی نائیجیریا کو بتایا، ’’لیکن اسلام میں خود کو فروخت کرنے کی بالکل بھی اجازت نہیں، چاہے کیسے بھی حالات ہوں۔‘‘
سوشل میڈیا صارفین نے اس خبر پر شدید ردِعمل کا اظہار کیا اور اسے نائیجیرین حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت کا نتیجہ قرار دیا۔
تاہم کچھ لوگوں نے حسبہ اسلامی پولیس کے اس عمل کی تعریف بھی کی اور کہا کہ انہوں نے ایک ’حرام کام‘ کی کوشش کرنے والے کو گرفتار کرکے بہت اچھا کیا۔
گرفتاری کے بعد علیونا ادریس نے حسبہ اسلامی پولیس کے اہلکاروں کو بتایا کہ اگر وہ دو کروڑ نائرا کے عوض خود کو فروخت کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو ملنے والی رقم میں سے 50 لاکھ نائرا حکومت کو ٹیکس کی صورت میں چلے جاتے۔
باقی ڈیڑھ کروڑ نائرا میں سے ایک کروڑ نائرا وہ اپنے والدین کو دینے کا ارادہ رکھتا تھا جب کہ 20 لاکھ نائرا وہ ایسے کسی بھی شخص کو دے دیتا جو ’گاہک‘ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرتا۔ ’’اس کے بعد بچ رہنے والی رقم میں اپنے روزمرہ استعمال کے لیے رکھ لیتا،‘‘۔
حسبہ اسلامی پولیس نے پوری رات نصیحتیں اور تبلیغ کرنے کے بعد، اگلے روز اسے آزاد کردیا۔