بچہ جب زور سے ہنستا ہے شور مچاتا ہے قہقہے لگاتا ہے خوش ہوکر ہر لمحے والدین کے سامنے ایک اور سوال کر بیٹھتا ہے، تب ہم بچے کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ سنجیدگی اپنانے لگتے ہیں۔ ہم ہمیشہ یہ بات بچے کی دماغ میں ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کو ہنسنا نہیں چاہیے، آپ کو قہقہے نہیں لگانا چاہیے آپ کو بلا وجہ سوالات نہیں کرنے چاہئیں۔ آپ جب زیادہ سے زیادہ کھڑوس بنو گے ہمیشہ خود پہ مصنوعی سنجیدگی طاری کیے رکھو گے، بلکہ آسان الفاظ میں جب آپ ایک خود کار مشین کی طرح کام کروگے تب جاکے معاشرہ آپ کو قبول کریگا۔
ہم زیادہ سے زیادہ اس بات پہ زور دیتے ہیں ہمارا بچہ وہی کچھ کرے جو معاشرے پسند کرتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ہمارا بچہ خود کیا پسند کرتا ہے، یہ اہمیّت نہیں رکھتا ہے۔ جب بچہ خوش ہوتا ہے ناز نخرے دکھاتا ہے غیر سنجیدہ ہوکر قہقہے لگاتا ہے ہر لمحے جینے کا اہل ہوتا ہے تب ہم اس طرح کے غیر سنجیدگی کو قبول نہیں کرسکتے ہیں، کیونکہ ہم وہی کچھ پسند کرتے ہیں جس کا ہم سے ہمارے ارد گرد کا ماحول تقاضا کرتاہے۔ تب بچہ دیکھتا ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے جب وہ کھیل کود سے لطف اندوز ہوتا ہے تب والدین اس کی خوشی قبول نہیں کرتے ہیں، اس کی باتوں کو سراہنے کے بجائے اس سے مختلف طریقوں سے نمٹنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر کس طرح وہ اپنے بچے کو اس ڈگر پر چلائیں جو انہونے بلکہ اس معاشرے نے تخلیق کی ہے، جہاں ہمیشہ سنجیدگی بناوٹ کلاکاری چلتی ہے۔ پھر ایک دن بچہ بیمار پڑتا ہے۔ والدین اس کی خوب تیمارداری کرتے ہیں، اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اس سے پوچھتے ہیں آپ کو کیا چاہئیے، آپ کیا پسند کرتے ہو، دیکھو ہم آپ کیلئے نئے کھلونے بھی لے کر آئے ہیں۔ تب دھیرے دھیرے یہ بات بچے کی ذہن میں بیٹھ جاتی ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تو اس کے والدین اس سے خوش نہیں ہوتے ہیں، اس کے کاموں کو اس طرح نہیں سراتے ہیں جس طرح بیماری کے ایام میں وہ توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ تب سے بچے پر ایک نفسیاتی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ یہ وہ دن ہوتا ہے جب بچے کے والدین کامیاب ہوتے ہیں کہ انہوں نے معاشرے کو ایک ہونہار فرمانبردار اور انتہائی سنجیدہ فرد بخشا ہے، جو آگے چل کر ان دونوں کیلئے باعث نیک نامی بنے گا۔ پر ٹھیک اسی لمحے بچہ ہمیشہ کیلئے ہار جاتاہے۔ اس کا بچپنا کہیں مفقود ہوتا ہے اس کے شوخ قہقہے ہمیشہ کیلئے اس سے کھو جاتے ہیں بلکہ اب وہ اس سنجیدہ اور انتہائی بوریت کا شکار معاشرے کا ایک کھڑوس فرد بن جاتاہے، جسے آخر دم تک معاشرے کے قوانین کو کسی خود کار مشین کی طرح فالو کرنا ہوتا ہے، جہاں ہنسنا کھیلنا کودنا خوش ہونا منع ہے۔ یہاں سے وہ بچہ ایک بد مزاج زندگی کا آغاز کرتاہے۔ ایک بوریت سے لبریز گنتی شروع ہوتی ہے۔
ہر والد والدہ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ خوش رہے، خوشی کی زندگی گزارے، ایک بہترین فرد بن کر ایک خوش باش زندگی جیئے، لیکن بچہ کب کس طرح کن چیزوں سے خوش ہوتا ہے، یہ سمجھنے کی کوشش کہیں بھی نہیں کی جاتی ہے حتیٰ کہ شادی جیسے زندگی بھر کے فیصلوں کو بھی ہم ایک ہی لمحے میں بچے سے مختلف حیلوں بہانوں سے کرواتے ہیں۔ ( ایموشنل بلیک میلنگ) وغیرہ۔ اپنے بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ بچے ضرور ہیں کوئی روبوٹ خودکار مشین نہیں ہیں جسے آپ جب بھی چاہیں طرح چاہے چلائیں۔