اسلام آباد کے دوست سے فون پر گفتگو ہو رہی تھی۔ اس دوران ان کا بیٹا بار بار اپنے والد سے کہہ رہا تھا ابو مجھے انکل سے بات کرنی ہے، ابو مجھے بھی بات کرنی ہے۔ آخر مجبوراً دوست نے کہا لو بھائی، پہلے بھتیجے سے بات کرو۔
بھتیجے نے سلام کرنے بعد پوچھا کہ انکل کیا کراچی میں بندر روڈ ہے؟ میں نے کہا ہاں بیٹا بندر روڈ ہے، جسے اب ایم اے جناح روڈ کہا جاتا ہے۔ اس نے بہت ہی معصومیت سے پوچھا کہ انکل کیا وہاں بندر بھی ہیں؟ میری بے ساختہ ہنسی نکل آئی۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ بیٹا بندر تو آج تک میں نے بھی نہیں دیکھے۔کراچی کا بندر روڈ، جس کا چپہ چپہ تحریک آزادی کا گواہ ہے، اس تاریخی سڑل کے بغیر کراچی کی داستان ادھوری ہے۔ بندر روڈ کراچی کی مرکزی سڑک تھی۔ فارسی میں لفظ "بندر” کے معنی پورٹ ہے اور پورٹ کو اردو میں بندر گاہ کہتے ہیں۔ چونکہ یہ روڈ بندر گاہ تک جاتا تھا اسی مناسبت سے اسے بندر روڈ کا نام دیا گیا۔
جب انگریزوں نے کراچی پر 1839 میں قبضہ کیا تو سب سے پہلے اسی سڑک کی تعمیر کا کام شروع کیا۔ شہر کی تمام اہم عمارتیں اسی روڈ پر قآئم کی گئیں۔ بندر روڈ گرومندر سے شروع ہو کر نیٹی جیٹی پل سے ہوتا ہوا کیماڑی اور ویسٹ وہارف پر ختم ہوتا تھا۔ بعد ازاں اسے توسیع دی گئی جو سینٹرل جیل تک چلی جاتی ہے مگر اب اس روڈ کو جمشید روڈ کہا جاتا ہے۔بندر روڈ گرومندر سے ہوتا ہوا نمائش پر پہنچتا ہے تو اس وقت وہاں مزار قائد نہیں تھا۔ اسی نمائش کے مقام پر نشتر پارک ہے۔ بندر روڈ کی خوبصورتی اس پر قائم دونوں اطراف میں تاریخی عمارتوں کے بیچ سڑک پر چلنے والی ٹرام سروس کے حوالے سے کافی دلچسپ تھی۔
یہاں پر خالق دینا ہال بھی ہے، جس کی شہرت مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے مقدمے کے حوالے سے ہے۔ اس روڈ پر خوب چہل پہل ہوتی تھی۔ مولے ڈینو کا مسافر خانہ، ڈینسو ہال، میری ویدر ٹاور، اسمال کاز کورٹ، کسٹم ہاؤس، کراچی پورٹ ٹرسٹ بلڈنگ اس سفر کے سنگ میل تھے۔ ڈینسوہال کے پاس دائیں اور بائیں ہاتھ سڑکیں نکلتی تھیں۔ بائیں ہاتھ والی سڑک "نیو چالی” میکلوڈ روڈ پر پہنچتی تھی۔ داہنے ہاتھ دو سڑکیں نکلتی تھیں ، ایک میریٹ روڈ، جس پر کاروباری کھولیاں اور دکانیں تھیں اور دوسری طرف نیپئیر روڈ، جہاں بازار حسن قائم ہوا تھا۔کراچی میں تقسیم سے قبل جانوروں کے لیے قائم کیا جانے والا پہلا اسپتال بھی اسی سڑک پر ہے۔ اسی اسپتال سے چند قدم آگے ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت بھی موجود ہے۔ یہاں پر ڈیڑھ سو برس پرانا مولوی مسافر خانہ اور آشرم ہوا کرتا تھا، جہاں دور دراز سے آئے ہوئے لوگ کچھ روز کے لئے رکتے اور کام کاج کے بعد چلے جاتے تھے۔ اب مولو ی مسافر خانہ، آشرم کی جگہ کچے پکے مکانوں کا جنگل بنا ہوا ہے۔ مولوی مسافر خانے کے عین سامنے ایک چھوٹا سا تکون پارک ہوتا تھا، جس کا نام شیوجی پارک تھا۔ بندر روڈ کے حوالے سے احمد رشدی نے مشہور گیت "بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی” 1954 میں گایا تھا۔ اس گیت کو مہدی ظہیر نے تحریر کیا تھا۔ یہ وہی مہدی ظہیر ہیں جن کے ایک اور لاجواب شاہکار نے بہت ہی شہرت حاصل کی تھی۔ اس گیت کے بول تھے، "ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیںہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیںدین ہمارا دین مکمل استعمار ہے باطل ارذل خیر ہے جدوجہدِ مسلسل عند اللہ۔۔ عنداللہ عنداللہ۔ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر۔”
احمد رشدی کا تعلق سادات گھرانے سے تھا اور ان کی پیدائش 1938 کو حیدرآباد دکن میں ہوئی تھی، ان کی وجہ شہرت بھی یہی نظم بنی۔بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑیب ابو ہو جانا فٹ پاتھ پر
بسوں کی آج ہوئی ہڑتال سواری کی پھر کیا ہے کالخدا دیتا ہے روٹی دال ذرا چل گھوڑے سر پٹ چال
ہوئی میری گاڑی اوورلوڈ جیو میری کالی بندر روڈ بابو ہوجانا فٹ پاتھ پریہ آیا ریڈیو پاکستانہے گویا خبروں کی دوکان
تو اس کے گنبد کو پہچانکہیں مسجد کا ہو نہ گمانکہ ہوتا ہے درسِ قرآن کہیں گمشدگی کا اعلان بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر
یہاں ہوتے ہیں بندو خان یہاں درباری اور کلیانیہیں پہ کوئی تمنچہ جان سنائے گیت غزل کی تان
مگر ہم بوڑھوں کے یہ کان کریں لے سر کی کیا پہچان بابو ہوجانا فٹ پاتھ پرگویا، شاعر، موسیقارہے سب کا نام یہاں فنکار
ملازم سب ناپائیدارمگر برسوں کے ہیں وظیفہ خواریہ ہے فن کا جُونا بازارکہ سب کا ہوتا ہے بیوپاربابو ہوجانا فٹ پاتھ پر
ہے میراثی بھی ایکٹر بھی قلی بھی مست قلندر بھییہاں ہے نیوز ایڈیٹر بھی شکیل احمد بھی انور بھی
یہیں کا آرٹسٹ بنتا جو ہوتا راجہ اِندر بھی بابو ہوجانا فٹ پاتھ پریہ آیا عید گاہ میدان یہاں کی بھی ہے نرالی شان
انوکھے یہاں کے ریستوران ہیں ان کے باسی سب پکوانیہ قلفی، کھیر، کباب، اور ران ہیں سب بیماری کے سامان بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر
سڑک کے بیچ ہے چوراہا وہ دیکھو ناچ سپاہی کاٹریفک کا یہ ان داتا ہے ٹوپی لال اور کوٹ اجلا
کدھر جاتا ہے او رکشہ ابے چالان کرائے گا بابو ہو جانا فٹ پاتھ پریہ آئی لکشمی بلڈنگ کبھی کی سب سے بڑی بلڈنگ
جو لالو کھیت سے بھی دیکھونظر آتی تھی یہی بلڈنگہے جن کا اس میں اک دفتراب وہ رکھتے ہیں کئی بلڈنگ بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر
ہوا میرا گھوڑا کم رفتارکہ آیا بولٹن بازارٹریفک کی ہے یہاں بھرمارکہ پیدل چلنا بھی دشوار
ٹراموں کا یہ بڑا جنکشن ہر اک جانب ہے چیخ پکاربابو ہو جانا فٹ پاتھ پریہ آیا بومبے بازار پھلوں کا ہوتا ہے بیوپار
سجے ہیں سیب، انگور، انار، موسمبی، مالٹے رس دارسفید و سرخ تو دکاں دارمگر گاہک لاغر بیماربابو ہو جانا فٹ پاتھ پر
یہ لو ہم پہنچ گئے ٹاور ہے جس کے باجو کھارادربسوں کا ہے یہ اک سینٹر کھڑے ہیں بہت سے کنڈکٹر
ٹریفک کا یہ ون وے رُوٹ یہیں سے کھاتا ہے چکربابو ہو جانا فٹ پاتھ پرچلو اب اترو بابو جی تمہاری منزل آ پہنچی
یہی ہے کراچی کی گودی جسے کہتے ہیں کیماڑیمنوڑے یہاں سے جانا ہوتو لے جائے گی تمہیں کشتی بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر
کیماڑی سے میری گاڑی اب تو چلی ہے گھر کو خالی بابو ہو جانا فٹ پاتھ پراس کی لاجواب دھن بھی مہدی ظہیر نے ترتیب دی دی تھی۔ اس نظم کی بے حد پسندیدگی کی وجہ سے انھیں بے پناہ شہرت ملی۔
قیام پاکستان کے ٹھیک دو سال بعد 1949 میں بندر روڈ کا نام تبدیل کر کے محمد علی جناح روڈ رکھ دیا گیا۔ بندر روڈ ہر صبح کو دھلتی تھی اور شام کو سوکھے پتے بھی چُنے جاتے تھے۔ معروف برطانوی مورخ الیگزینڈرر ایف بیلی بندر روڈ کے حوالے سے لکھتے ہیں، ’’بندرروڈ کی لمبائی پونے تین میل ہے۔ یہ سڑک ایک بڑے میدان پر جا کے ختم ہوتی ہے۔ جسے جنرل پریڈ گراؤنڈ کہتے ہیں۔‘‘ بہر حال بندر روڈ کا چپہ چپہ اور ہر عمارت ایک داستان ہے۔ جس بندر روڈ کو میری ویدر ٹاور، ڈینسو ہال کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا، اب نہاری، مٹھائی یا کبابوں کی دُکانوں سے جانا جاتا ہے۔ بندر روڈ بانی پاکستان کے نام سے منسوب ہو نے کے باوجود اب دھلنا تو درکنار یہ سڑک بارش کے پانی کو بھی ہضم نہیں کر سکتی۔ ریڈیو پاکستان "جہاں تھی خبروں کی دکان” اب صرف افسران کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ یہاں نہ اب زیڈ اے بخاری ہیں نہ ہی بندو خان اور نہ ہی مولانا احتشام الحق تھانوی۔ اب اس سڑک پر ٹریفک کو اپنی دسترس میں رکھنا ٹریفک پولیس کے بس کی بات نہیں رہی اس شہر کو اسی شہر کے باسیوں نے اپنے ہی ہاتھوں کھنڈر بنا دیا۔1930 کے عشرے میں تعمیر کی گئی تاریخی عمارتوں کی جگہ لینے کے لیے پلازا بن رہے ہیں۔ دو چار جو عمارتیں بچ گئی ہیں ان پر بھی بلڈر مافیا کی کمین نظریں ہیں۔ ہندوؤں کی تعمیر کی گئی یہ بوسیدہ عمارتیں کسی وقت بھی ترقی کے نئے دور میں داخل ہو سکتی ہیں اگر ارباب اختیار ان پر سچی نیت اور محب وطن سوچ سے عمل درآمد کرنے کی کوشش کرتے تو یہ عروس البلاد مصر، اٹلی ، اسپین کی طرح دنیا کے سیاحوں کا مرکز بن سکتا تھا مگر افسوس اس بھوکے ننگے معاشرے نے اپنے تاریخی ورثے کو غیر حملہ آوروں کی طرح لوٹا۔ کسی اخبار میں ایک کالم پڑھا تھا جس میں لکھا تھا کہ بندر روڈ کو جناح صاحب سے منسوب کر کے ہم نے اس کا وہی حشر کیا جو ان کے انتقال کے بعد پاکستان کے ساتھ کیا ہے۔