گزشتہ دنوں دوستوں کے ہمراہ ساحلِ سمندر پر روزہ افطار کرنے کا اتفاق ہوا۔ افطار کے بعد ساحل پر ہی موجود مختلف اشیا فروخت کرنے والے لوگوں سے میں اور میرے ہم جماعت ساتھی اعجازالرحمٰن نے اپنی عادت کے مطابق موجودہ حالات سے متعلق بات چیت شروع کی تو بڑی حیرت ہوئی کہ لفظ ” لاک ڈاؤن ” کے لغوی معنوں سے بھی حقیقتاً بے خبر کم عمر, نوجوان و بزرگ یعنی ہر چھابڑی اور ریڑھی والوں کے افسردہ چہروں پر رنج و غم کے آثار اور زبان پر بس یہی ایک لفظ اور بس ایک ہی سوال تھا، ” بھائی لاک ڈاؤن کب سے لگ رہا ہے ؟
ہم ان سے بات چیت کرتے رہے اور یہ باور کراتے رہے کہ یہ سب کچھ ہماری صحت اور ہمیں اس جان لیوا وائرس سے بچاؤ کیلئے ہی کیا جارہا ہے اور ان کو یقین دلاتے رہے کہ اگر ہم کچھ دنوں کی مشکل برداشت کر لیں گے تو اتنی ہی جلدی ہم دوبارہ سے معمول پر لوٹ سکیں گے.
چہل قدمی کرتے کرتے ہمارا سامنا تقریباً 3 سے 4 سال کی ایک پھول جیسی خوبصورت اور معصوم بچی سے ہوا, جو ساحل پر پھول ہی بیچ رہی تھی. ہمیں آتا دیکھ کر پھول ہماری طرف بڑھایا تو پھول نہ خریدنے کے باوجود اسے پیسے دینے پر اس کے ضمیر نے وہ پیسے لینا گوارہ نہ کیا. ہم اس کے اس رویے سے بہت متاثر ہوئے اور اس کے اس عمل سے اندازہ ہوا کہ وہ پیشہ ور بھکاری نہیں ہے بلکہ مجبورئ حالات کی ماری ہے. جس کے بعد ہمارے اصرار پر ہی اس نے چیونگم لے کر دینے کی خواہش ظاہر کی.
ہم نے چیونگم کے ساتھ اسے چاکلیٹ بھی دینا چاہی تو اس نے وہ لینے سے بھی انکار کردیا اور چیونگم کو کھولتے ہوئے معصومانہ انداز اور پشتون لہجے میں سوال داغا, ” بھائی لاک ڈاؤن لگ گیا ہے؟”
میں اور اعجاز الرحمٰن دونوں ہی اس کے اس سوال پر چونک گئے کہ اس ننھی بچی کا لاک ڈاؤن سے کیا لینا دینا ہوسکتا ہے.
اعجاز الرحمٰن کے اس سوال پر کیا کہ اسے پتہ ہے لاک ڈاؤن کیا ہوتا ہے؟ اس نے چیونگم چباتے ہوئے معصومانہ انداز میں نفی میں سر ہلا دیا اور بھاگتے ہوئے دوبارہ دوسرے گاہکوں کو پھول بیچنے میں مصروف ہوگئی.
اس کا چند پھولوں پر مشتمل یہ چھوٹا سا کاروبار شاید اس کے گھر کا چولہا جلنے کا واحد ذریعہ اور ممکن ہے کہ اس کے کنبے کا کل اثاثہ ہو۔
وہاں موجود ہر ایک کی زبان سے لاک ڈاؤن کے متعلق سوالات کی گردان نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ موجودہ حالات میں بے شک کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے لاک ڈاؤن لگا دینا ہی ایک واحد حل ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ تو نہیں ہے۔
مگر سوال تو بنتا ہے کہ اس وائرس کی پہلی لہر اور اُس دوران لگنے والے لاک ڈاؤن اور پھر حالات کچھ درست ہونے کے بعد اس دوران وفاقی و صوبائی حکومتوں نے مستقبل کیلئے کیا کچھ پلاننگ کی تھی؟
اس دوران ہونے والے نقصانات کا ازالہ نہ سہی, اس کے بعد ہی غریب طبقے کیلیے کچھ سوچ بچار کی گئی تھی؟
یا اب دیہاڑی دار مزدوروں اور اس متوقع لاک ڈاؤن کے نتیجے میں متاثر ہونےوالے افراد کے گھروں کے چولہے جلانے کیلئے حکومتوں نے کچھ سوچا ہے؟ ان کے لیے کوئی ریلیف پروگرام بنایا یے؟
کاروباری نقصانات تو پھر قابل برداشت ہیں اور عوام کو کورونا سے بچانا بھی ضروری ہے , مگر لاک ڈاؤن میں گھروں میں محصور دیہاڑی دار طبقہ بھوک اور افلاس سے متاثر ہونے لگا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ؟
حکومت نے اس کے لیے کچھ سوچا ہو یا نہ سوچا ہو , مگر ہمیں ایک مرتبہ پھر بطور قوم وہی جذبہ جگانا ہے جو پاکستانی قوم کا خاصہ ہے. لسانی , سیاسی ,مذہبی بنیادوں پر بٹی ہوئی یہ قوم ہر مشکل وقت میں ہمیشہ متحد نظر آتی ہے.
جنگیں ہوں , سیاسی آفات ہوں یا کوئی اور مشکل صورتحال ہو , اپنے سب مسئلوں کو بھلا کر ایک قوم ایک آواز کے مصداق اس قوم نے ہمیشہ ثابت قدمی کا ثبوت دیا ہے. اسی جذبے کی ایک بار پھر ضرورت ہے , حکومتی اقدامات پر آس لگائے بیٹھے رہنے کے بجائے کم از کم اس عید پر اور متوقع لاک ڈاؤن میں ہمیں اپنے اہل و عیال , آس پڑوس اور اگر مزید استطاعت ہو تو سرِ راہ نظر آجانے والے غریب افراد کی مدد ضرور کرنی چاہیے.
آج کی یہ چھوٹی سی نیکی کل بروز حشر ہمارے گناہوں کے پلڑے پہ بھاری پڑسکتی ہے.
اس بچی کا وہ افسردہ چہرہ لیے مجھ سے پوچھا جانے والا وہ سوال "بھائی کیا لاک ڈاؤن لگ گیا ہے؟” اور میرے انکار پر اسکا کِھل اٹھنے والا چہرہ میری نظروں میں بار بار گھوم رہا ہے۔
اپنے گھر کا سامان خریدتے ہوئے اگر کسی مستحق شخص کے کسی بچے کو ایک ٹافی یا چاکلیٹ بھی خرید دیں گے , یا اپنی شاپنگ کرتے ہوئے کسی کیلئے ایک سوٹ یا چپل خرید دیں تو کسی بھی شکل میں کسی مستحق کی مدد کردیں گے تو ہماری اس کوشش سے کئی لوگوں کے چہروں یہی مسکراہٹ آ سکتی ہے. ان کے بچوں کو عید کا تحفہ مل سکتا ہے. یہ مشکل وقت ان کے لیے کچھ آسان ہوسکتا ہے.
خدارا۔۔۔ ان مستحق لوگوں پر رحم کریں، بروزِ حشر اوپر والا آپ پہ رحم کرے گا۔