تحریر: محمد عماد
آج کل ادباء اور شعراء میں ایک عجیب بات دیکھنے کو مل رہی ہے جو کہ دل دہلا دینے والی ہے کہ ہر کوئی دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔ ہر ایک کی یہی کوشش ہے کہ اسے دوسرے سے اعلیٰ و ارفع سمجھا جائے۔
اپنی جھوٹی انا کو تسکین دینے کے لیے ہر کوئی دوسرے پر تنقید کر رہا ہے۔ کبھی کسی شاعر کے شعر پر تو کبھی کسی ادیب کے نثر پارے پر۔ کبھی مشاعروں پر جانے والوں کو طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی افسانہ لکھنے والوں کی مٹی پلید کی جاتی ہے۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ اب ادب میں بھی دھڑا دھڑ گروپ بن رہے ہیں اور ایک گروپ دوسرے سے ملاقات تو درکنار چہرہ دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا۔
ایک دوسرے کی عزتِ نفس اچھالنے کے لیے کرائے کے دانشور اور تجزیہ نگار رکھے گیے ہیں جو ایک ڈبی سگریٹ اور ایک کوکا کولا پر کسی بھی قابل شاعر یا ادیب کی عزت کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ ادب کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے سب نے۔ اور انتہائی غیر سنجیدہ زبان کا استعمال اب عام ہو چکا ہے۔ ادب میں ایسی صورتحال ہم سب کے لیے لمحہء فکریہ ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ادب کسی کے باپ کی جاگیر نہیں اور نا ہی انسان کسی کا غلام ہے۔ ہر ایک کو حق ہے کہ وہ اپنی آراء سے دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ اس کے کہے گئے بول اور لکھے گئے الفاظ سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ باقی جو بھی، جیسے بھی، جہاں بھی، جس طرح بھی اور جس صورتحال میں بھی ادب کا کام کر رہا ہے تو اسے کرنے دیا جائے۔ اگر حوصلہ نہیں بڑھا سکتے تو کم از کم غیر ضروری تنقید سے گریز کیا جائے۔ ادب میں بھلا کیسا مقابلہ۔ مومن کے ایک شعر پر غالب اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار ہو گیے تھے.۔
فرض کی ادائیگی میں مقابلے نہیں ہوتے۔ نتیجے کی پروا کیے بغیر بس ادائیگی ہوتی ہے۔ شاعر یا ادیب چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، بلکہ شاعر، شاعر اور ادیب، ادیب ہوتا ہے۔ اور کوئی بھی اپنی مرضی سے ادیب یا شاعر نہیں بنتا بلکہ یہ فیصلے پہلے سے کر دیے جاتے ہیں۔غزلیں اور نظمیں اپنے شاعروں کو اور کہانیاں اپنے ادیبوں کو خود ڈھونڈ لیتی ہیں۔
وہ تمام احباب جو کسی بھی حوالے سے ادب کے ساتھ وابستہ ہیں ان کی مثال سورج، چاند اور ستاروں جیسی ہے۔ ہر ایک کا اپنا مقام، اپنا درجہ، اپنا رتبہ اور اپنی جگہ ہے۔ سورج چاند کی جگہ لے گا تو مسائل پیدا ہوں گے۔ ستارے سورج کی جگہ آئیں گے تو خرابیاں پیدا ہوں گی۔ چنانچہ جو ادب کے سورج اور چاند ہیں، ان سے التماس ہے کہ وہ ستاروں کو بھی اپنی قابلیت آزمانے کا موقع دیں اور ستارے بھی احسان فراموشی نہ کریں بلکہ ہمیشہ سورج اور چاند کے متمنی رہیں کہ آج ہم لوگ جس نہج پر ہیں وہ اپنے سینئرز کی وجہ سے ہی ہیں۔ ہمارا اپنے سینئرز سے کوئی مقابلہ نہیں۔ ہم کوئی مقابلے کرنے تھوڑی آئے ہیں۔ ہم تو سیکھنے آئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پھل ہمیشہ جھکے درخت کو ہی لگتا ہے۔
ہم جونیئرز کو اپنے سینئرز سے پیار اور حوصلہ بھری تھپکیوں کی ضرورت ہے، نا کہ عزتِ نفس کو مجروح کرنے والی تنقید اور قابلیت کو دبانے والی بے عزتی کی۔ اور ہمارے سینئرز بھی ہم سے ڈھیروں ڈھیر ادب اور عزت کی توقع رکھتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے، کیونکہ جو ادب ہمیں ادب نہیں سکھاتا وہ ادب ادب نہیں بلکہ بہت بڑا فتنہ ہے اور فتنہ تو قتل سے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ (ادب کے دائرے میں رہ کر سوچیے)