برصغیر پاک و ہند پر انگریزوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ ہندوستان کے رہنے والوں کو جبری غلامی کا طوق پہنا دیا گیا تھا۔ لوگ بے بسی، مجبور و لاچاری کے عالم میں کسی مسیحا کے منتظر تھے کہ کوئی ہمارا غمگسار آئے اور ہماری داد رسی کرے۔ کوئی تو ہو جو ہمیں اس ظلم و جبر کی اندھیری راتوں سے نجات دلائے اور وہ سویرا دکھائے جس کا خواب ہم نے برسوں سے دیکھا ہے۔
جہاں ہندوستان کے مختلف شہروں میں انگریزوں کے خلاف چھوٹی چھوٹی مزاحمتی تحریکیں جنم لے رہی تھیں وہاں دوسری طرف سندھ میں ایک شیر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ انگریز سرکار کو آنکھیں دکھا رہا تھا۔ جہاں دوسرے لوگ کسی معجزہ برپا ہونے کے منتظر تھے وہیں یہ شیرسندھ کے لوگوں کو اپنے حق کے لیے لڑنا سکھا رہا تھا۔اُس نے انگریزوں سے لڑنے کے لیے باقاعدہ اپنی ایک فوج تیار کی جسے آج دنیا حُر کے نام سے جانتی ہے۔ وہ اُٹھا اور سندھ کے لوگوں کو بتایا، غلامی سے بہتر عزت کی موت ہے، لڑکراپنا حق لو یا شہید ہوکر تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاوُ۔
اُس کی تحریک نے ایسا اثر دکھایا کہ لوگوں نے سر پر کفن باندھ لیے اور آزادی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیے۔ انگریز سرکار اس مردِ حُر سے اس قدر خوف زدہ ہوگئی کہ اُسے نہ چاہتے ہوئے بھی سندھ میں مارشل لاء لگانا پڑا۔ وہ مردِ قلندر، شیرِ سندھ، دور اندیش، بردبار، بہادر اور نڈر انسان کوئی اور نہیں بلکہ سید صبغت اللہ شاہ راشدی دوم تھے۔
پیر صبغت اللہ شاہ راشدی دوم 1910کو درگاہ عالیہ راشدیہ پیرانِ پاگارہ، پیر جو گوٹھ، ضلع خیر پور میرس، سندھ میں پیدا ہوئے۔ آ پ نے صرف بارہ سال کی عمر میں اپنے والد کی وفات کے بعد اُن کی گدی سنبھالی اور پیر صاحب پگارا ششم کے نام سے مشہور ہوئے، آپ کو لوگ سورھیہ بادشاہ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔
انگریزوں کے خلاف بھرپور اعلانِ جہاد کے بعد انگریز سرکار نے کئی بار چاہا کہ اس مردِ قلندر کو خرید لے، کبھی مال و عہدے کی لالچ تو کبھی جان کی دھمکی دے کر انہیں اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی۔ صبغت اللہ شاہ راشدی دوم کو جب جان کی دھمکی دی اور ان سے کہا اگر آپ معافی مانگ لیں تو ہم آپ کی جان بخش دیں گے، تو آپ نے جواب میں ایسی بات کہی جسے آنے والے وقتوں میں سنہری حرفوں میں لکھا جائے گا۔ آپ نے فرمایا:
‘شہادت ہمارا تاج ہے۔ اسے آگے بڑھ کر پہن لینا ہمارے لیے عبادت ہے۔ ہم نے صرف آزادی کو چاہا ہے اور یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ ظالم سے معافی مانگنے کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم تو صرف اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں’۔
انگریزوں کے خلاف مزاحمتی تحریک چلانے پر آپ کو کئی بار جیل بھی جانا پڑا۔ پیر صاحب پگارا کو 24 اکتوبر1941 کو گرفتار کرکے سیونی جیل میں قیدی بنا دیا گیا۔ جنوری1943 کو پیر صاحب کو سیونی جیل سے سندھ منتقل کردیا گیا اور اسی سال ہزاروں حُر رہنماوُں کو اُن کے خاندان سمیت گرفتار کرلیا گیا۔ پیر پگارا صاحب کی شخصیت کا کرشمہ اور ان کی تعلیمات ہی تھیں کہ انگریزوں نے ان کے ساتھیوں کو خریدنے کی کوشش کی، جان سے مارنے کی دھمکی دی لیکن وہ بکے اور نہ ہی جھکے۔
20مارچ 1943 ہی وہ دن تھا جب انگریزوں نے اس مردِ قلندر کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ شخص زندہ رہا تو ہمارے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتا رہے گا، انگریز خوب جانتے تھے کہ یہ ڈرنے والا نہیں اور نہ ہی اس کو خریدا جا سکتا ہے۔ ہندوستانی تاریخ میں دو ایسی شخصیت ہیں جن سے انگریز مرنے کے بعد بھی خوف کھاتے رہے ایک ٹیپو سلطان جن کے مرنے کے گھنٹوں بعد بھی انگریز ان کے قریب نہیں جا رہے تھے کہ کہیں یہ زندہ ہوا تو ہمیں قتل کردے گا اور دوسرے پیر صاحب پگارا جنہیں فقط 34 سال کی عمر میں پھانسی دے دی گئی اور اُن کی تدفین کو خفیہ رکھا گیا۔ اگر انگریز ایسا نہ کرتے تو پیر صاحب کا مزار ہی انگریزوں کے لیے خوف اور دہشت کی علامت بن جاتا اور وہی مزار دیگر آزادی کی تحریک چلانے والوں کے لیے مرکز و محور بن جاتا۔
سندھ کے یہ ہیرو جنہوں نے تحریک آزادی کے لیے اپنی جانیں پیش کی وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ہماری ذمے داری ہے کہ ان کی زندگی اور تعلیمات کو ہم اپنی آنے والی نسلوں تک منتقل کریں۔ یاد رکھیں جو قومیں اپنے محسنوں کو فراموش کردیتی ہیں وہ تباہ ہوجاتی ہیں۔