مہروز احمد
یہ ارض پاک یوں ہی حاصل نہیں ہوگئی، اس کے پیچھے بے شمار قربانیاں ہیں، لاکھوں لوگوں نے تحریک آزادی پاکستان کے دوران اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ آل انڈیا مسلم لیگ ملک کی بانی جماعت ہے، قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں اس جماعت کے تحت برصغیر کی تقسیم ہوئی اور ایک آزاد وطن ہمیں نصیب ہوا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان نہ صرف پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے، بلکہ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی اور تحریکِ پاکستان کے اہم ترین رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ لیاقت علی خان نے ایک نوزائیدہ مملکت کے استحکام، سیاسی سمت اور انتظامی بنیادوں کے تعین میں مرکزی کردار ادا کیا۔ آج اُن کا یوم شہادت ہے، 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں اُنہیں شہید کردیا گیا تھا۔ ان کی شہادت آج بھی پاکستانی تاریخ کا الم ناک اور پُراسرار باب ہے۔
نوابزادہ لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1895 کو کرنال (موجودہ بھارت کی ہریانہ ریاست) میں ایک معزز اور تعلیم یافتہ نواب خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد نواب رستم علی خان جاگیردار تھے۔ لیاقت علی خان نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور بعدازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے شوق نے انہیں انگلستان پہنچادیا، جہاں انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایکسٹر کالج سے ایم اے اور قانون کی تعلیم حاصل کی۔ 1919 میں وہ بار ایٹ لا کی ڈگری کے ساتھ برطانیہ سے واپس آئے اور ہندوستان میں عملی سیاست میں طبع آزمائی کا فیصلہ کیا۔
نوابزادہ لیاقت علی خان نے سیاست کا آغاز 1923 میں کونسل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کیا، جہاں وہ جلدہی اپنی علمیت، شائستگی اور اصول پسندی کے باعث ممتاز ہوگئے۔ ابتدا میں وہ کانگریس سے بھی وابستہ رہے، لیکن جلد ہی انہیں اندازہ ہوا کہ کانگریس کی سیاست دراصل ہندو اکثریت کے مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ اس احساس نے انہیں مسلم لیگ کی جانب راغب کیا، جو مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور علیحدہ تشخص کی علمبردار جماعت تھی۔
1936 میں جب قائداعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی ازسرِنو تنظیم کا آغاز کیا تو لیاقت علی خان ان کے قریبی ساتھی اور مشیر کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے مسلم لیگ کے مالیاتی معاملات، پالیسی سازی اور تنظیمی ڈھانچے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 1940 کی دہائی میں وہ قائداعظم کے دستِ راست بن چکے تھے۔ 1940 کی قراردادِ لاہور (قراردادِ پاکستان) کے بعد مسلم لیگ کی سیاست نے ایک نئی سمت اختیار کی اور لیاقت علی خان نے اس سفر میں قائداعظم کے شانہ بشانہ کام کیا۔ 1945–46 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی شاندار کامیابی میں ان کی تنظیمی صلاحیتوں کا بڑا ہاتھ تھا۔
قیامِ پاکستان سے قبل جب عبوری حکومت قائم ہوئی تو لیاقت علی خان کو وزیرِ خزانہ مقرر کیا گیا۔ انہوں نے 1947 میں جو بجٹ پیش کیا، وہ تاریخ میں لیاقت بجٹ کے نام سے مشہور ہے۔ اس بجٹ میں پہلی بار ہندوستان کے دولت مند طبقے، خصوصاً صنعت کاروں اور زمینداروں پر ٹیکس لگائے گئے، جس سے مسلم لیگ کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ یہ بجٹ دراصل ایک سماجی انصاف پر مبنی مالی پالیسی تھی، جس نے ثابت کیا کہ لیاقت علی خان محض سیاست دان نہیں بلکہ ایک مدبر معاشی مفکر بھی ہیں۔
14 اگست 1947 کو جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو لیاقت علی خان کو ملک کا پہلا وزیراعظم مقرر کیا گیا۔ قائداعظم گورنر جنرل کے منصب پر فائز ہوئے اور دونوں نے مل کر نئی ریاست کی بنیادیں مضبوط کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ابتدائی برسوں میں پاکستان کو بے شمار چیلنجز کا سامنا تھا، جن میں لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری، مالی وسائل کی کمی، انتظامی ڈھانچے کی عدم موجودگی، بھارت کی جانب سے کشمیر اور دیگر تنازعات سرفہرست تھے۔ ان تمام بحرانوں میں لیاقت علی خان نے استقامت، بصیرت اور قومی خدمت کا مظاہرہ کیا۔
قائداعظم کی رحلت نوزائیدہ مملکت کے لیے کسی عظیم سانحے سے کم نہ تھی۔ قائد کی وفات کے بعد تمام تر ذمے داری لیاقت علی خان اور ان کے رفقاء کے کاندھوں پر آن پڑی تھی۔ اس نازک وقت میں نوابزادہ لیاقت علی خان نے ملک کا انتظام و انصرام انتہائی احسن انداز میں چلاکر اسے ترقی اور کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کیا۔ لیاقت علی خان نے پاکستان کو اسلامی جمہوری مملکت بنانے کے لیے نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ 1949 میں انہوں نے قراردادِ مقاصد پیش کی، جو پاکستان کے آئینی ڈھانچے کی بنیاد بنی۔
اس قرارداد میں واضح کیا گیا کہ: حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ ریاست میں اقتدار عوام کے ذریعے امانت کے طور پر استعمال ہوگا۔ اقلیتوں کو مذہبی، ثقافتی اور سیاسی آزادی حاصل ہوگی۔ یہ قرارداد بعد میں پاکستان کے آئین کا تمہیدی حصہ بنی، جس نے ملک کے نظریاتی رُخ کا تعین کیا۔
خارجہ محاذ پر لیاقت علی خان نے پاکستان کو عالمی سیاست میں باوقار مقام دلانے کی کوشش کی۔ ابتدائی دور میں سوویت یونین نے انہیں ماسکو کے سرکاری دورے کی دعوت دی، لیکن بعدازاں وہ 1950 میں امریکا کے دورے پر گئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی سربراہِ حکومت کا پہلا بڑا بین الاقوامی دورہ تھا۔ ان کے اس دورے نے پاکستان کو مغربی دنیا سے قریبی تعلقات استوار کرنے میں مدد دی، تاہم کچھ ناقدین کے نزدیک یہ فیصلہ پاکستان کو امریکا کے بلاک میں لے گیا۔ لیاقت علی خان کا موقف یہ تھا کہ پاکستان کو دنیا کے ہر ملک سے تعلقات برابری کی بنیاد پر رکھنے چاہئیں اور کسی طاقت کے زیرِ اثر نہیں آنا چاہیے۔
لیاقت علی خان انتہائی سادہ، دیانت دار اور منکسر المزاج شخصیت تھے۔ ان کی نجی زندگی میں نمود و نمائش کا کوئی عنصر نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے تھے۔ ان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان بھی ایک فعال سیاسی اور سماجی کارکن تھیں، جنہوں نے خواتین کی تعلیم اور فلاحی کاموں میں نمایاں کردار ادا کیا۔
16 اکتوبر 1951کو لیاقت علی خان راولپنڈی کے کمپنی باغ (موجودہ لیاقت باغ) میں جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے کہ اچانک ایک نامعلوم شخص نے اُن پر گولی چلا دی۔ گولی سینے میں لگی اور وہ چند ہی لمحوں میں شہید ہوگئے۔ قاتل موقع پر ہی مارا گیا۔ یہ واقعہ پاکستانی تاریخ کا پہلا بڑا سیاسی قتل تھا، جس نے قوم کو سوگوار کردیا اور پاکستان کے سیاسی مستقبل پر گہرے اثرات ڈالے۔
لیاقت علی خان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے پاکستان کے لیے وہ ادارہ جاتی، نظریاتی اور سیاسی بنیادیں فراہم کیں، جن پر بعد کے ادوار میں تعمیر کا عمل جاری رہا۔ اسلامی جمہوریت، مساوات، خودمختاری اور عوامی خدمت کے اصول ان کی سیاست کے بنیادی ستون تھے۔ انہیں شہیدِ ملت کا لقب دیا گیا، جو ان کی قربانی اور قومی محبت کی علامت ہے۔ لیاقت علی خان کی زندگی پاکستان کی تاریخ کا روشن باب ہے۔
انہوں نے قائداعظم کے خواب کو حقیقت بنانے میں اپنی صلاحیتیں، وقت اور آخرکار اپنی جان تک قربان کردی۔ اگر وہ مزید کچھ عرصہ زندہ رہتے تو شاید پاکستان کا سیاسی منظرنامہ مختلف ہوتا۔ ان کی شہادت نے ایک خلا پیدا کیا جو آج تک پُر نہیں ہوسکا۔