انسان کی پیدائش سے لے کر آج تک ہر دور میں ہی انسانیت میں سے اللہ پاک کچھ لوگوں کو مخصوص صلاحیتوں سے نوازتا ہے، جو قوم کے رہنما یا لیڈر کہلاتے ہیں اور جو قوموں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ گو اللہ پاک نے جتنے انبیائے کرام علیہم السلام اس دنیا میں مبعوث فرمائے، انہوں نے بھی قوم کی رہنمائی فرمائی۔
سب سے بڑے، اعلیٰ، اشرف، عظیم رہنما اور عظیم لیڈر اس دنیا میں اللہ پاک کے پیارے حبیب آقا ﷺ تشریف لائے اور اندھیروں میں گری ہوئی قوم کی اللہ پاک کے حکم سے رہنمائی کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذات میںایک حاکم و فرماں روا، سیاست دان اور عظیم مدبر و منتطم، سب کی خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھیں۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اس مضمون کو بیان کرتی ہیں کہ آپ ﷺ اللہ کی جانب سے مقرر کردہ حاکم ہیں اور یہ منصب آپ کو بحیثیت رسول اللہ ﷺ عطا ہوا ہے۔ ایسا قطعاً نہیں ہے کہ آپ ﷺ ریاست قائم کرکے اس کے حاکم و مدبر اور منتظم از خود بن بیٹھے ہوں یا لوگون نے انہیں منتخب کرکے آپ ﷺ کا اپنا فرماں روا بنادیا ہو۔ آپ ﷺ کی فررماں روائی رسالت سے ہٹ کر کوئی علیحدہ شے نہیں ہے اور بطور حاکم آپ ﷺ کی اطاعت بھی عین اللہ کی اطاعت ہے۔ آپ ﷺ کی بیعت سے منحرف ہونا دراصل اللہ کی حاکمیت کا انکار کرنا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی لیڈر شپ اور قائدانہ صلاحیتیں ہر مسلمان، بلکہ پوری دنیا کے ہر انسان کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، ہم میں سے ہر دوسرا شخص کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی جگہ لیڈر کا کردار ادا کر رہا ہے۔
چاہے گھر میں اپنے ہی خاندان کا سربراہ ہو، یا اپنے آفس میں ٹیم لیڈڑ ہو، یا اپنے کاروبار کو دیکھ رہا ہو اور تمام ملازمین اس کے ماتحت ہوں وغیرہ وغیرہ۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ ہمیں اگر یہ ذمے داری عنایت کی گئی ہے تو ہمارے اندر کون سی چیزوں کی کمی ہے۔ اگر وہ عادات یا سوچ اپنے آپ پر لاگو کرلوں تو کامیابیاں مل سکتی ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ لیڈر شپ ک لیے لیڈر کو چاہیے کہ خود بھی تربیت یافتہ ہو اور اپنی ٹیم کی تربیت کا بھی خیال رکھے، اپنے آپ میں خود اعتمادی پیدا کرے، اپنے آپ پر بھروسہ ‘یقین’ رکھے، اعتماد اور اپنے آپ پر بھروسہ آپ کے وقار میں اضافہ کرتا ہے۔ آپ اپنی محنت اور صلاحیت پر یقین رکھیں، کوشش کریں کہ معاشرے میں اپنی اور اپنی ٹیم میں غور و فکر کرتے رہیں۔ ماضی کی کامیابیوں کو تصور میں لاتے رہیں، اپنی ٹیم میں مہارت اور خود اعتمادی پیدا کرتے رہیں، ااپ لوگوں کی مدد کریں، جس کا رزلٹ یہ آئے گا کہ یقیناً لوگ پھر آپ کی مدد کریں گے چاہے وہ مالی مدد ہی کیوں نہ ہو۔ یا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنا وقت نکال کر خود آپ کی مدد کو آجائیں، اور ہو سکتا ہے کہ وہ دعا کریں اور وہ قبولیت کی گھڑی ہو اور ان کی دعا قبول ہوجائے۔ آپ میں ضبطِ نفس، یونی صبر اور استقامت ضرور ہونا چاہیے۔ ایک لیڈر کی اولین خوبی یہ ہوتی ہے کہ چیلنج قبول کرتا ہے۔ وہ فوراً کسی بھی مسئلے کی تہہ تک پہنچ کر اس کا حل دریافت کرلیتا ہے، شکریہ ادا کرنا ایک قائد کو ناقابلِ یقین کامیابیوں سے نواز سکتا ہے۔ جب ٹیم اچھی کارکردگی دکھائے تو محض شکریہ نہیں، بلکہ incentive دینا چاہیے۔ مثلاً نقد انعام، مالی امداد، ترقی، تنخواہ میں اضافہ، بونس وغیردہ۔ اس سے ایک لیڈر لوگوں کے دل جیت لیتا ہے۔ اچھا صلہ بہترین قیادت کا خاصہ ہے۔ لیڈر اپنے ماتحتوں میں بھروسہ اور تجسس پیدا کرنے کے بعد انہیں اپنے خیالات، سوچ اور صلاحیتوں کو آزادانہ طور پر استعمال کرنے کی اجازت دے تو اس طرح وہ کام سے محبت کرنے لگیں گے اور کارکنان کی مستعدی و مہارتیں بہتری کے لیے استعمال ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عظیم لیڈر، رہنما کے نمونے کو سامنے رکھتے ہوئے گزرتے دور میں ان چند اصولوں پر عمل کرلے جو کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں بھی ہمیں نظر آتے ہیں تو وہ ایک عظیم لیڈر بن سکتا ہے اور صرف خود یا اپنے خاندان ہی کو نہیں، بلکہ پوری قوم کے لیے ایک عظیم لیڈر کا کردار ادا کرسکتا ہے ۔