آج کارگل کے ہیرو حوالدار لالک جان کا 22 واں یوم شہادت ہے۔ آپ کو ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدرعطا کیا گیا۔
ہماری دھرتی اس لحاظ سے خوش قسمت گردانی جاسکتی ہے کہ یہاں مادر وطن کی حفاظت اور سلامتی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے دینے تک سے گریز نہ کرنے والے سپوت بڑی تعداد میں پہلے بھی تھے، اب بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے کہ یہ وطن قیامت تک قائم رہے گا۔ انہی بہادروں کے طفیل پاکستان نے دشمن کے ہر موقع پر دانت کھٹے کیے۔
حوالدار لالک جان یکم اپریل 1967 کو وادی یاسین، ضلع غذر، گلگت بلتستان میں پیدا ہوئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد دسمبر 1984 کو آپ پاک فوج سے بہ حیثیت حوالدار منسلک ہوئے۔ آپ کا تعلق ناردرن لائٹ انفنٹری رجمنٹ سے تھا۔ جب کارگل جنگ کا آغاز ہوا تو آپ اسی رجمنٹ میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ مئی 1999 میں آپ کو آپ کی خواہش پر کارگل جنگ کے اگلے محاذ پر بھیجا گیا۔ آپ نے ہر طرف برف کی چادر میں لپٹے سربہ فلک پہاڑوں پر خدمات انجام دیں۔ سردی نقطۂ انجماد سے 65 ڈگری کم تھی۔ لالک جان پچھلی کچھ راتوں سے دشمن سے چومکھی لڑائی لڑرہے تھے۔ ٹائیگر ہلز پر پاک فوج قبضہ کرچکی تھی، یہاں دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش میں بھارت کی کئی بٹالین تباہ کی گئیں۔
سیاچن کے پہلو میں واقع ٹائیگر ہلز کا یہ علاقہ پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے اہم تھا۔ کارگل جنگ کے آغاز میں ہی یہ پہاڑی سلسلے پاک فوج کے قبضے میں آچکے تھے۔ گیارہ سرفروش صوبیدار سکندر کی کمان میں دشمن کو بارہا پسپائی اختیار کرنے پرمجبور کررہے تھے۔ یکم جولائی 1999 کی سرد ترین رات میں دشمن نے ایک بار پھر پوری قوت سے حملہ کیا، جسے ناکام بنانے کے بعد صوبیدار سکندر نے اپنے گیارہ ساتھیوں سے کہا کہ اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے بھارتی مورچوں کے درمیان بارودی سرنگیں بچھادی جائیں تو دشمن پیش قدمی کے قابل نہیں رہے گا۔ لالک جان نے اس کام کے لیے خود کو پیش کیا اور ایک گھنٹے ہی میں انہوں نے بارودی سرنگوں کا ایسا جال بچھایا جو بعدازاں دشمن کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
ٹائیگر ہلز پر قبضے کے لیے جب دشمن آگے بڑھا تو نشیب سے لگاتار دھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں، جس سے دشمن کی توپیں اور بندوقوں کو یکسر سانپ سونگھ گیا۔ دشمن 6 جولائی 1999 کی رات اپنی ڈویژن فوج کے ذریعے ٹائیگر ہلز پر قبضے کے لیے آگے بڑھا۔ اس معرکے میں صوبیدار سکندر اور سات ساتھی شہید ہوگئے۔ لالک جان اور تین ساتھی ہی بھارتی فوج سے بہادری کے ساتھ نبردآزما تھے۔
سات جولائی 1999 کو بھی ٹائیگرہلز پر بارود کی بارش ہوتی رہی، جس سے باقی تین ساتھی بھی شہید ہوگئے جب کہ لالک جان نے شدید زخمی بازو کے ساتھ دشمن کو اُس وقت تک الجھائے رکھا، جب تک کیپٹن عامر اپنے ساتھیوں سمیت ٹائیگر ہلز نہ پہنچ گئے۔ کیپٹن عامر نے بھارتی فوج کے ایک ایسے مورچے کا سراغ لگایا، جہاں سے مسلسل گولا باری ہورہی تھی۔ لالک جان کا کہنا تھا کہ اس کا ایک ہی حل ہے، دشمن کو اس مورچے سمیت تباہ کردیا جائے۔ اس مقصد کے لیے لالک جان نے بارود کا تھیلا چھاتی سے باندھا اور پہاڑی گھاٹیوں میں ایسے اترے جیسے وہ زخمی نہ ہوں۔ نصف گھنٹے بعد دشمن کا وہ مورچہ دھماکوں سے گونج اٹھا۔
کیپٹن عامر نے اپنے دو کمانڈوز کو لالک جان کی تلاش میں آگے بھیجا۔ کمانڈو کو دشمن کے تباہ شدہ مورچے سے لالک جان کی گولیوں سے چھلنی نعش ملی، جہاں دشمنوں کی لاشیں، تباہ شدہ توپیں اور اسلحہ نشان عبرت تھا۔ حوالدار لالک جان کی تدفین اُن کے آبائی علاقے ہندور، وادی یاسین، ضلع غذر گلگت بلتستان میں ہوئی۔