نئی دہلی: معروف بھارتی اخبار دی ہندو نے انکشاف کیا ہے کہ مرکزی حکومت کو ملنے والی انٹیلی جنس معلومات کے مطابق لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ لداخ کا تقریباً ایک ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ اس وقت چین کے زیر کنٹرول ہے۔ دوسری طرف چین نے انتباہی انداز میں کہا ہے کہ اگر بھارت مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو اس کو ماضی کے برعکس زیادہ فوجی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
بھارتی اخبار کے مطابق چین اپریل سے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ فوج جمع کرکے اپنی موجودگی کو مستحکم کررہا ہے۔ ایک افسر نے ‘دی ہندو’ کو بتایا کہ ڈپسانگ کے میدانی علاقے سے چوشل تک چینی فوجی منظم انداز میں غیر معینہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ نقل وحرکت کرتے رہے ہیں۔
اس نے انکشاف کیا کہ ڈپسانگ کے میدانی علاقے میں پٹرولنگ پوائنٹ 10 سے 13 تک لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا بھارتی حصہ 900 مربع کلومیٹر کے لگ بھگ چین کے زیر تسلط ہے۔ ان میں وادی گلوان میں 20 مربع کلومیٹر اور ہاٹ اسپرنگز میں 12 مربع کلومیٹر کا علاقہ مکمل طور پر چینی قبضے میں ہے، پینگونگ تسوجھیل کا 65 مربع کلومیٹر جب کہ چوشل میں 20 مربع کلومیٹر کا علاقہ بھی چینی کنٹرول میں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پینگونگ تسوجھیل کے قریب فنگر 4 سے 8 تک ایک وسیع علاقہ بھی چینی فوج کے قبضے میں ہے، جھیل سے متصل فنگر 4 سے 8 کا درمیانی فاصلہ 8 کلومیٹر ہے۔ اس علاقے میں مئی تک چینی اور بھارتی فوجی دونوں پٹرولنگ کرتے تھے، بھارت کی نظر میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا یہ علاقہ اس کا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل چین اور بھارت کے فوجیوں کے مابین لداخ میں تازہ جھڑپوں کی اطلاعات ہیں جس کے بعد سے چینی فضائیہ کے طیارے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے آس پاس فضا میں گشت کررہے ہیں اور حالات کشیدہ بتائے جارہے ہیں۔
بھارتی خبر رساں اداروں کے مطابق چین نے ایل اے سی کے پاس اپنی فضائی بیس ہوٹن پر جے ایف جنگی طیارے تعینات کردیے ہیں جو لداخ میں سرحد سے بالکل متصل مسلسل پرواز کررہے ہیں۔ اس دوران بھارتی فوجی سربراہ جنرل منوج مکند نروانے بھی سرحد پر تعینات فوجی کمانڈروں سے بات چیت کی ہے۔ انہوں نے فوجی کمانڈروں کو کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔
دوسری طرف لداخ میں سرحدی تنازع پر کشیدگی بڑھ رہی ہے اور دو روز قبل ہونے والی نئی جھڑپ کے بعد چین نے انتباہی انداز میں کہا ہے کہ اگر انڈیا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو اس کو ماضی کے برعکس زیادہ فوجی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ بات چینی حکومت کے حمایت یافتہ اخبار گلوبل ٹائمز نے منگل کو اپنے اداریے میں لکھی ہے۔
پیر ہی کو چینی فوج کے ترجمان نے کہا کہ انڈیا نے سرحد کی خلاف ورزی کی ہے اور مطالبہ کیا کہ انڈیا اپنی فوج وہاں سے نکالے۔ اس کی بارڈر فورس نے لائن آف ایکچول کنٹرول کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔
گلوبل ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا کہ انڈیا کہتا ہے کہ اس نے چینی فوج کی دراندازی روکی ہے۔ یہ فوج تھی جس نے کشیدگی بڑھانے میں پہل کی۔
بیجنگ میں حکومت کے حمایت یافتہ اخبار گلوبل ٹائمز نے غیر معمولی طور پر سخت الفاظ کے اداریے میں نئی دہلی کو جواب دینے کی بات کی ہے۔ اداریے میں لکھا ہے کہ پینگونگ سو جھیل کے اس ٹکراؤ سے واضح ہے کہ ہمسائے ملک نے وادیِ گلوان کے ٹکراؤ سے سبق نہیں سیکھا۔ وہ اب چین کو اشتعال دلارہا ہے۔
اخبار نے مزید لکھا کہ انڈیا کو ’طاقتور چین‘ کا سامنا ہے اور نئی دہلی کو اس وہم و گمان میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسے اس معاملے پر امریکا کی حمایت ملے گی لیکن اگر انڈیا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو چین کے پاس بھارت کے مقابلے میں زیادہ وسائل اور صلاحیت ہے۔ اگر بھارت فوجی کارروائی کرنا چاہتا ہے تو پیپلز لبریشن آرمی اس کو 1962 کی نسبت زیادہ شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اداریے میں مزید کہا گیا کہ چین انڈیا سرحدی ٹکراؤ اور اس سے متعلق کئی چھوٹے بڑے مسئلے ابھی جاری رہیں گے۔ ان اختلافات کو پُرامن طریقے سے بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا سبھی کے مفاد میں ہے، لیکن اگر بھارت چین کے ضبط کو مسلسل چیلنج کرتا رہے گا تو چین کو نرمی سے پیش آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے جب ضرورت ہو عسکری قدم اٹھانا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جیت اسی کی ہوگی۔