فاطمہ نکلا ہے "فطم” سے جس کا معنی ہے دور ہونا۔ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: میری اس بیٹی کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا کیونکہ اللہ تعالی نے اس کو اور اس کے محبین کو دوزخ سے دور کر دیا ہے۔
خاتونِ، جنت سیدة نساء العالمین البتول الزہراء حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان و عظمت کے کیا کہنے کہ حضور ﷺ نے آپ کو اپنے جگر کا ٹکرا قرار دیا اور آپ کی ناراضی اور تکلیف کو اپنی ناراضی اور تکلیف قرار دیا۔
امام مالک آپ کی فضیلت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: طہارتِ نفس اور شرفِ نسب میں حضرت فاطمة الزہراء سے بڑھ کر کوئی نہیں۔
آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت اعلان نبوت سے پانچ سال قبل ہوئی۔ آپ کی ابتدائی پرورش آپ کے والدین جناب حضرت محمد مصطفی ﷺ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمائی۔ آپ کی والدہ کے انتقال کے بعد حضور ﷺ نے آپ کو حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کے سپرد کر دیا پھر جب آپ ﷺ نے حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تو آپ حضرت ام سلمی کی پرورش میں آگئیں۔
حضرت ام سلمی آپ کے بارے میں فرماتی ہیں کہ: "حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو میرے سپرد کیا گیا۔ میں نے انہیں ادب سکھانا چاہا مگر خدا کی قسم فاطمہ تو مجھ سے زیادہ مودب تھیں اور تمام باتیں مجھ سے بہتر جانتی تھیں۔”
دو ہجری میں آپ کا نکاح مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ہوگیا۔
آپ کی شادی کے بعد کی زندگی طبقہِ نسواں کے لیے ایک مثال ہے۔ آپ گھر کا تمام کام خود کرتی تھیں۔ 7 ھجری میں رسول اللہ ﷺ نے آپ کو ایک کنیز عنایت کی جو فضہ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے ساتھ حضرت فاطمہ نے باریاں مقرر کی تھیں یعنی ایک دن وہ کام کرتی تھیں اور ایک دن حضرت فضہ کام کرتی تھیں۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ ان کے گھر تشریف لائے اور دیکھا کہ آپ بچے کو گود میں لیے چکی پیس رہی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک کام فضہ کے حوالے کر دو۔ آپ نے جواب دیا کہ بابا جان آج فضہ کی باری کا دن نہیں ہے۔
آپ کے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی مثالی تعلقات تھے۔ کبھی ان سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کیا۔ ایک دفعہ بیماری نے آپ کے سایہ میں پناہ لی تو حضرت علی نے پوچھا کہ کچھ کھانے کو دل چاہتا ہو تو بتاؤ۔ آپ نے کہا کہ؛ "میرے پدر بزرگوار نے تاکید کی ہے کہ میں آپ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں، ممکن ہے کہ آپ اس کو پورا نہ کرسکیں اور آپ کو رنج ہو۔اس لیے میں کچھ نہیں کہتی۔” حضرت علی نے جب قسم دی تو انار کا ذکر کیا۔
آپ کی سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اپنے گھر کے کاموں کے لیے کسی کو مدد کے لیے نہ بلاتی تھیں۔ نہ کام کی کثرت اور نہ کسی قسم کی محنت و مشقت سے گھبراتی تھیں۔ ساری عمر شوہر کے سامنے شکایت نہیں کی اور نہ ان سے کسی چیز کی فرمائش کی۔ کھانے کا اُصول یہ تھا کہ چاہے خود فاقے سے ہوں جب تک شوہر اور بچوں کو نہ کھلا لیتیں خود ایک لقمہ بھی منہ میں نہ ڈالتیں۔
یہ تھا حضرت فاطمہ کا ایک مثالی کردار کہ شادی سے پہلے بھی مؤدب تھی اور شادی کے بعد بھی اتنی ہی مؤدب تھیں کہ اپنے والد اور اپنے شوہر کی دل سے اطاعت فرماتی اسی طرح شادی کے بعد گھر کا کام خود فرماتی اور شوہر سے اس خوف سے مطالبات بھی نہیں فرماتی کہ کہیں وہ پورا نہ کرسکیں اور انہیں رنج ہوں۔
آج ٣ رمضان المبارک آپ رضی اللہ عنھا کے عرس کے موقع پر آپ کی سیرت کا یہ پہلو اس لیے خاص طور پر ذکر کیا تا کہ ہماری مسلمان بہنیں یہ جان سکیں کہ جس نبیﷺ کا انہوں نے کلمہ پڑھا ہے ان کی بیٹی کا اپنے والد اور شوہر کے ساتھ کیا رویہ تھا اور وہ ان کو اپنا رول ماڈل بنا کر اس طوفانِ بدتمیزی سے بچ سکیں جو "آزادی” کے نام پر انہیں اپنے والدین اور شوہر سے بغاوت پر اکساتا ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اہلِ بیتِ اطہار کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین