سگریٹ کا ایک کش آدمی کو نشے کے دلدل میں پھینکنے کا باعث بن سکتا ہے۔ دنیا میں نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے کام کرنے والے ماہرین بھی نشے کی دیگر سماجی اور نفسیاتی وجوہ کے ساتھ اس ایک نکتے پر متفق ہیں کہ فلموں اور ڈراموں میں نشے کے استعمال کو دیکھ کر نوجوان نسل اس طرف مائل ہوتی ہے۔ بری صحبت میں فیشن کے طور پر شروع ہونے والی خراب عادت وقت کے ساتھ پختہ ہونے لگتی ہے اور سگریٹ پینے والے نوجوان چرس، ہیروئن اور آئس کا نشہ بھی کرنے لگتے ہیں۔۔ اس وقت ملک میں صرف ہیروئن پینے والے افراد کی تعداد 8 لاکھ بتائی جاتی ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران تعلیمی اداروں میں منشیات کا پہنچ جانا انتہائی تشویش ناک ہے، نوجوان پڑھائی کے بوجھ، محبت میں ناکامی اور دیگر مسائل کی وجہ سے پیدا ہونے والے ذہنی دباؤ سے خود کو بچانے کے لیے بھی نشے کا سہارا لیتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے بھی نشے کی عادت کو دنیا کے بڑے صحت کے مسائل کی فہرست میں شامل کیا ہے اور ملگ گیر سطح پر نشے کی عادت کی روک تھام کے علاوہ نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر بحالی مراکز اور آگاہی پروگرامز کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
جناح اسپتال شعبۂ حادثات کی سربراہ سیمی جمالی کا کہنا ہے کہ حکومت نشے کے عادی افراد کی بحالی کے ساتھ منشیات کی نقل وحمل روکنے کے لیے بھی مؤثر اقدامات کرے تو تسلی بخش نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ بالخصوص سرنج کے ذریعے ہیروئن استعمال کرنے والوں میں سے 58 فیصد ایڈز کا شکار ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شہر میں کئی ایسے میڈیکل اسٹورز بھی ملوث ہیں جو ممنوعہ ادویہ نشے کے عادی افراد کو فروخت کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہورہا ہے، جہاں منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ملک میں سالانہ 40 ہزار نشے کے عادی افراد میں اضافہ ہورہا ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نشے کے عادی افراد کی تعداد 76 لاکھ ہے، جس میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین شامل ہیں، مختلف طرح کے نشے کرنے والے ان افراد کی عمریں 15 سے 65 سال کے درمیان بتائی جاتی ہیں۔
منشیات کے اسمگلرز ہماری ساحلی پٹی کے ذریعے بھی بڑی مقدار میں منشیات اسمگل کرتے ہیں، اس وقت کراچی میں ایک سو سے زیادہ منشیات کے بڑے اڈے قائم ہیں۔ کراچی میں پہلے لیاری، ناظم اباد، پرانی سبزی منڈی، شانتی نگر، ماڑی پور، جیکسن، موچکو، منگھوپیر اور اورنگی ٹاؤن اور شہر کے کئی اور مضافاتی علاقوں میں بڑے پیمانے پر منشیات فروخت کی جاتی تھی، لیکن اب منشیات کراچی کے پوش علاقوں میں بھی دستیاب ہے۔ محمود اباد چنیسر گوٹھ میں بدنام منشیات فروش لالہ کے کارندے ڈیفنس، گذری، ساحل اور درخشاں کے پوش علاقوں میں ہفتے کی شب کو منعقد ہونے والی ڈانس پارٹیوں میں چرس، ائس اور کرسٹل کی سپلائی بھی کرتے ہیں۔
کراچی میں بعض منشیات کے اڈوں کو بااثر افراد کی سرپرستی حاصل ہے۔ پولیس میں بھی منظم جرائم کی سرپرستی کرنے والے افسران اور اہلکار کل بھی موجود تھے اور اج بھی موجود ہیں۔ یہی پولیس افسران اور اہلکار منشیات کی سرپرستی کے ذریعے مال بناتے ہیں، کیونکہ کراچی کے منشیات فروش پیسے کو بطور طاقت استعمال کرتے ہیں، پولیس میں اپنے مخبر اہلکاروں کی مہربانی سے یہ ہمیشہ گرفتاری سے بچ جاتے اور اگر کبھی گرفتار ہو بھی جائیں تو پیسے کی چمک کام آجاتی ہے، ان کے خلاف کمزور کیسز بنائے جاتے ہیں، جس کے بعد یہ کچھ ہی ہفتوں میں رہا ہوجاتے ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی عمران یعقوب منہاس نے چارج سنبھالنے کے بعد منظم جرائم اور منشیات کے منظم کاروبار کے خلاف خود مانیٹرنگ کا فیصلہ کیا تھا اور اپنی خفیہ ٹیم کو منظم منشیات فروشوں کی کھوج میں لگادیا تھا۔ کراچی پولیس چیف کی ویجیلنس ٹیم نے کراچی کے 4 مقامات کیماڑی، ڈاکس، لیاقت آباد اور عزیز بھٹی سے ہیروئن خریدی، جس کے بعد پولیس نے کراچی میں منشیات فروشوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن جاری رکھا ہوا ہے، جس میں اسے رینجرز کی معاونت بھی حاصل ہے۔
گذشتہ ایک ہفتے کے دوران کراچی کے مختلف علاقوں میں رینجرز اور پولیس نے منشیات فروشوں کے خلاف الگ الگ کارروائیاں کرتے ہوئے 307 کلو گرام چرس برآمد کرکے 6 بڑے منشیات فروشوں کو گرفتار کیا۔
ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کے مطابق اسٹیل ٹاؤن پولیس نے منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 3 ملزمان کو گرفتار کرکے 200 کلو گرام چرس برآمد کی۔ ملزمان شہر بھر میں منشیات سپلائی کرنے کے لیے معذور افراد کا استعمال کرتے تھے، گرفتار ملزمان میں فدا محمد، اورنگزیب، عبداللہ جان عرف لگڑ بگڑ شامل ہیں۔
دوسری جانب ترجمان رینجرز کے مطابق سندھ رینجرز نے بھی شیریں جناح کالونی میں منشیات فروشوں کے خلاف کامیاب کارروائی کرتے ہوئے 3 ملزمان کو گرفتار کرکے 107 کلوگرام چرس برامد کرلی، برآمد ہونے والی چرس کی مالیت 1 کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔ ملزمان شہر کے مختلف علاقوں میں منشیات سپلائی کرتے تھے، ملزمان صادق، رجب اور آصف کو پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی کو منشیات سے پاک کرنا چاہتے ہیں، یہ اقدام قابل ستائش ہے، لیکن وہ اسی صورت کامیاب ہوسکتے ہیں جب ان کی ٹیم اور منشیات کے خلاف کام کرنے والے دیگر ادارے بھی نیک نیتی سے ان کا ساتھ دیں ورنہ ماضی میں جرائم کی رپورٹنگ کے دوران یہ بات بارہا مشاہدے میں آئی کہ افسران بالا کے دباؤ میں آکر تھانوں کی سطح پر افسران محض کارکردگی دکھانے کے لیے نمائشی کارروائیاں کرتے رہے، افسران کارکردگی دکھانے کے لیے خود سستی منشیات خرید کر نشے کے عادی افراد کو گرفتار کرتے اور ان کے خلاف منشیات فروشی کے جھوٹے مقدمات درج کردیتے۔
کراچی پولیس چیف کا شہر قائد کو منشیات سے پاک کرنے کا عزم بلاشبہ لائق تحسین ہے، لیکن اس حوالے سے ماضی خاصا تلخ ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ منشیات فروشوں کے خاتمے کے لیے ہونے والی یہ کارروائیاں کچھ دن تک جاری رہیں گی، یا اس بار انہیں کسی اثررسوخ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا؟ دکھاوے کے لیے منشیات فروشوں کے خلاف چند کارروائیاں تو ہر بار ہی کرلی جاتی ہیں، لیکن قوم کی رگوں میں زہر بھرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن آج تک نظر نہیں آیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ سخت کریک ڈاؤن کے ذریعے مثبت اور حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
اس کے لیے کراچی پولیس چیف کو ایسا میکنزم بنانا ہوگا، جس کے تحت پکڑی جانے والی منشیات کی کوالٹی چیک کی جاسکے اور گرفتار ملزمان کے خلاف درج کیسز میں شفافیت ہو، منشیات کے کیسز پر ایسے ماہر تفتیش کاروں کے کام کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے جن کی محنت سے پولیس ملزمان کو عدالتوں سے کڑی سزائیں دلاسکے۔
انسداد منشیات کے لیے باقاعدہ قائم ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس اور دیگر فورسز کو بھی شہر کو ڈرگز فری بنانے کے لیے کراچی پولیس کا ساتھ دینا چاہیے، کیونکہ کراچی میں منشیات پیدا نہیں ہوتی بلکہ سیکڑوں چیک پوسٹس سے گزر کر آتی ہے، چیک پوسٹوں پر تعینات فورسز کو منشیات کی شہر میں اسمگلنگ ناکام بنانے کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ حکومت کو نشے کے عادی افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ بحالی مراکز قائم کرنے ہوں گے اور نشے کی لعنت کے خاتمے کے لیے ہنگامی اقدامات ممکن بنانے ہوں گے۔ منشیات کی طلب اور رسد کے خاتمے کے لیے یکساں طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔