سندھ میں کم عمر ملزمان کی تعداد میں گذشتہ پانچ سالوں کے دوران تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
جوینائل جسٹس سسٹم کے باوجود سندھ میں کم عمر ملزمان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ سندھ کی چار جیلوں مِیں کم از کم 200 نوعمرملزمان تاحال انصاف کے منتظر ہیں۔ سماجی معاشی مسائل بڑھ جانے سے کم عمری میں جرائم کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ عدالتوں میں بڑی تعداد میں نو عمر ملزمان کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ سندھ پولیس چائلڈ پروٹیکشن سینٹرز کے ذریعے واردات سے عدالت تک نوعمر ملزمان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے اقدامات کررہی ہے۔
رواں سال 6 جنوری کو کراچی کے بلوچ کالونی تھانے میں گھریلو ملازمہ شنیلا کے خلاف چوری کا مقدمہ درج ہوا۔ 15 سالہ یہ بچی ٹھٹھہ سے تعلق رکھتی ہے لیکن کم عمری میں فکر معاش کی خاطر اسے کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس کے ایک بنگلے میں ملازمت کرنی پڑی، جہاں اس پر 5 تولہ سونا چوری کا الزام لگا۔ کئی ماہ تک کیس چلتا رہا اس وقت کیس سی کلاس ہوچکا ہے اور شنیلا کئی ماہ جیل کورٹ کچہری کے چکر کاٹنے کے بعد واپس ٹھٹھہ جاچکی ہے۔
سولہ سالہ محسن اور تیرہ سالہ احمد رشتے دار ہیں۔ چار ماہ قبل سولجربازار پولیس نے دونوں کو موٹر سائیکل چوری کے الزام میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ کچھ عرصے بعد گھر والے ضمانت کروانے میں کامیاب ہوگئے لیکن تاحال کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہے اور ہر پیشی پر والدین کو یہ امید ہوتی ہے کہ شاید بچوں کی کم عمری دیکھ کر کیس ختم کردیا جائے۔
قنونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم ”’لیگل رائٹس فورم”’ کے مطابق سندھ کی چار بڑی جیلوں میں نوعمر ملزمان کی تعداد میں اس سال بھی اضافہ ہوا ہے۔ سینٹرل جیل کراچی میں 126 کم عمر ملزمان موجود ہیں۔ حیدرآباد جیل میں22 نوعمر ملزمان موجود ہیں، سکھر جیل میں 22 اور لاڑکانہ جیل میں 5 نوعمر قانونی امداد کے منتظر ہیں۔ سندھ میں 4 نوعمر ملزمان عدالتوں سے سزاپانے کے بعد جیلوں میں قید ہیں۔
سندھ کی ان چار بڑی جیلوں میں ایسی سزایافتہ یا انڈر ٹرائل مائیں بھی موجود ہیں جن کے ساتھ ان کے بچے بھی قید ہیں۔ اپنی ماؤں کے ہمراہ قید کاٹنے والے ان بچوں کی تعداد 26 ہے۔ کراچی جیل میں 17، حیدرآباد جیل میں 2، اور5 بچے لاڑکانہ جیل میں اپنی ماؤں کے ساتھ قید ہیں۔
نوعمر قیدیوں کے لئے آواز اٹھانے والی تنظیموں کے مطالبات ہیں کہ جرم کی نشاندہی ہونے کے بعد نوعمروں کی عدالت کو مقدمات کا فیصلہ 4 ماہ کے اندر کردینا چاہئے۔ کسی بھی بچے کو کسی بالغ فرد کے ساتھ جرم کا ملزم نہیں ٹھہرایا جاسکتا اور نہ ہی ان پر اکھٹے مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔کمسن افراد کو ہتھکڑی نہ لگائی جائےگی نہ ہی زنجیروں میں جکڑا جائے گا اور حراست کے وقت کوئی جسمانی سزا نہیں دی جائے گی، بشرط کہ جہاں بچے کے حراست سے فرار ہونے کا مناسب خدشہ ہوتو ہتھکڑی لگائی جائے گی۔15 سال سے کم عمر بچے کو جسے کسی ایسے جرم کے الزام میں گرفتار کیا ہو جس کی سزا دس سال قید سے کم نہ ہو قابل ضمانت جرم کا ملزم تصورکیا جانا چاہئے۔ کسی قابل ضمانت جرم میں گرفتار بچوں کو نوعمروں کی عدالت کو ضمانت کے ساتھ یا بغیر ضمانت رہائی کردینا چاہئے البتہ رہائی سے اس صورت میں انکار کیا جاسکتا ہے اگر بچے کی سلامتی کو خطرہ ہو۔ اس صورت میں بچے کو کسی پروبیشن افسر یا کسی دوسرے مناسب فرد کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔
ماہر قانون ملک طاہر ایڈوکیٹ لیگل رائٹس فورم کے تحت ملک بھر میں کم عمر ملزمان کو قانونی امداد فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ چلڈرن ایکٹ 1955 پر عملدرآمد سے سزایافتہ بچوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں پولیس کا کردار انتہائی اہم ہے۔ کوئی بھی 18 سال سے کم عمر بچہ اگر گرفتار ہوتو پولیس فوری ایف آئی ار درج کرنے کے بجائے تین اہم اقدامات پر عمل کرے تو بچوں پر مقدمات کم سے کم ہوسکتے ہیں۔ پولیس کو بچے کے خاندان کو اگاہ کرنا چاہئے۔ سوشل انویسٹی گیشن رپورٹ کے لئے پولیس سوشل ویلفئر ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کرسکتی ہے یا پروسیکیوشن ڈپارٹمنٹ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ جو بچے کی جیلوں میں موجود ہیں ان کے حوالے سے ملک طاہر ایڈوکیٹ قانونی امداد کی فراہمی کے ساتھ ایسے آبزرویشن ہوم اور بحالی مراکز کے قیام پر زور دیتے ہیں جہاں پر ان کم عمر قیدیوں کو اصلاح ، تعلیم، ہنر سکھانے کی ٹریننگ دی جائیگی تاکہ وہ آئندہ معاشرے میں عام شہریوں کی طرح اچھا وقت گزار سکے۔
سندھ کے تمام ایس ایس پیز کے زیرنگرانی سندھ پولیس کے چائلڈ پروٹکیشن سینٹرز کام کررہے ہیں جہاں بچوں سے زیادتی، تشدد، گمشدگی یا اغواء کے کیسز کو پہلے مرحلے میں دیکھاجاتا ہے اور والدین کو قانونی مدد یا رہنمائی دی جاتی ہے، لیکن ان چائلڈ پروٹیکشن سینٹرز کے ذریعے نوعمر ملزمان کے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی کیا جاتا ہے۔ سندھ پولیس کے ایس ایس پی شاہ جہان خان کا کہنا ہے کہ سندھ میں ایف آئی ار کا اندراج آسان ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے رپورٹڈ کرائمز کے اعداد و شمار بڑھے ہیں۔ غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے بھی کم عمر بچوں کے جرائم کے کیسز بھی اضافہ ہوا ہے۔ کم عمر ملزمان کو عادی ملزمان کے ساتھ نہیں رکھاجاتا۔ اس سلسلے میں چائلڈ پروٹیکشن سینٹرز کافی معاون ثابت ہورہا ہے۔ یہاں کم عمر بچوں کے خلاف مقدمہ کے اندراج سے قبل جرم کی نوعیت کو دیکھاجاتا ہے۔ معمولی نوعیت کے کے کیسز پر ایف آئی درج نہیں کرتے۔ لڑائی جھگڑے کے کیسز میں کوشش ہوتی ہے کہ فریقین آپس میں صلح کرسکیں۔
پاکستانی قانون کے مطابق کم عمر بچوں کو عمرقید کی سزا دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے، لیکن نئی نسل کی نادانی یا کسی اور وجہ سے جرائم میں ملوث ہونے پر قانون محض ان کو سزا دینے والا ہتھیار نہ ہو بلکہ اصلاح کرنے ہاتھ بنے اس کے لئے جووینائل جسٹس سسٹم پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد ضروری ہے۔ کم عمر ملزمان کی تعداد میں اضافہ معاشرے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کا مشترکہ مسلہ ہے اس کے لئےسماجی ماہرین، قانون نافظ کرنے والے اداروں اور عدالتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔