اسلام آباد: ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے 3 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری ڈگری کیس کے اپنے جاری کردہ تحریری فیصلے میں کہا کہ طارق محمود جہانگیری کو متعدد مواقع دیے کہ وہ اپنا جواب اور متنازع تعلیمی اسناد پیش کریں، طارق محمود جہانگیری اپنا جواب اور تعلیمی اسناد پیش کرنے میں ناکام رہے، طارق محمود جہانگیری کی جانب سے کوئی معقول وجہ بھی سامنے نہیں آ سکی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اس صورت حال میں عدالت کے پاس مزید کارروائی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا، ہائی کورٹ کے جج کے عہدے کے لیے اہلیت فردِ واحد سے متعلق ہوتی ہے، آئین میں مقرر کردہ اہلیت کا حامل ہونا اعلیٰ عدالت کا جج بننے کے لیے بنیادی اور لازمی شرط ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ طارق محمود جہانگیری جب اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایڈیشنل جج مقرر ہوئے اس وقت درست اور قابلِ قبول ایل ایل بی ڈگری کے حامل نہیں تھے، بعد ازاں مستقل جج بننے کے وقت بھی طارق محمود جہانگیری درست اور قابلِ قبول ایل ایل بی ڈگری کے حامل نہیں تھے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ جب طارق محمود جہانگیری وکیل بننے کے اہل ہی نہیں تھے تو آرٹیکل 175-A کے تحت ہائیکورٹ کے جج بننے کے اہل بھی نہیں ہوسکتے تھے، بطور جج تقرری اور ترقی غیر قانونی اختیار کے تحت کی گئی، طارق محمود جہانگیری اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے عہدے پر فائز نہیں رہ سکتے۔
فیصلے کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری کو فوری طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے عہدے سے فارغ کردیا گیا، وزارتِ قانون و انصاف کو جسٹس طارق محمود جہانگیری کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم دے دیا گیا۔
عدالت نے عدالتی حکم نامے کی کاپی وزارتِ قانون کو فوری بھجوانے کی ہدایت کی اور تمام زیرِ التوا متفرق درخواستیں نمٹا دیں۔
جسٹس طارق جہانگیری فیصلہ سنائے جانے سے آدھا قبل ہی اسلام آباد ہائی کورٹ سے روانہ ہوگئے تھے۔