ٹیکساس: 77 سالہ امریکی شہری پولیو کی وجہ سے مکمل مفلوج ہوچکا تھا، لیکن اس کے باوجود وہ گزشتہ 70 برس سے ایک پرانی طبی ایجاد لوہے کے پھیپھڑوں (آئرن لنگ) میں رہنے پر مجبور ہیں اور اب بھی پرجوش ہیں۔
ٹیکساس کے پال الیگزینڈر 6 برس میں پولیو کے شکار ہوئے اور چند ہی ماہ میں جسم کو ہلانے اور خود سے سانس لینے کی بھی قوت کھوچکے تھے۔ انہیں آئرن لنگ نامی ایک ایجاد میں لٹایا گیا جو ان کا ایک نیا لباس بن گئی اور تب سے اب تک وہ 70 برس سے اسی کیفیت میں لیٹے ہوئے ہیں۔
ڈیلاس سے تعلق رکھنے والے پال الیگزینڈر کو پولیو کی وجہ سے پولیو پال بھی کہا جاتا ہے۔ 6 برس کی عمر میں بیمار ہونے کے بعد انہیں پولیو کا مرض تشخیص ہوا اور ڈاکٹروں نے والدین سے کہا کہ انہیں ساری زندگی ایک سات فٹ کی ڈرم نما مشین میں لیٹے ہوئے گزارنا ہوگی۔
1952 میں امریکا میں پولیو کی وبا پھیلی ہوئی تھی جو اب مکمل ختم ہوچکی ہے۔ پال الیگزینڈر بھی اس کے شکار ہوئے۔ لیکن اس شدت کے پولیو میں وہ اپنے ہاتھ، پیر اور دیگر اعضا ہلانے سے قاصر رہے۔ یہاں تک کہ آہنی پھیپھڑوں کے بغیر وہ زندہ بھی نہیں رہ سکتے تھے۔
مددگاروں کی ایک ٹیم ان کی صفائی، مشین چلانے اور کھانے پینے کا خیال رکھتی ہے جب کہ انہیں لکھنے کے لیے منہ میں قلم رکھا جاتا ہے۔ اگرچہ اب وینٹی لیٹراور دیگر جدید مشینیں موجود ہیں لیکن پال کہتے ہیں کہ وہ ڈرم نما مشین کے عادی ہوچکے ہیں اور اس میں خوش ہیں۔
اس کیفیت میں انہوں نے تعلیم مکمل کی، قانون کی ڈگری حاصل کی اور باقاعدہ وکالت بھی کی ہے جو ان کی ہمت کو ظاہر کرتی ہے۔ کبھی کبھار وہ مشین سے کچھ دیر کے لیے باہر بھی نکلتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے سانس لینے کے ایک طریقہ سیکھا ہے جسے ’فراگ بریدنگ‘ کہتے ہیں جس میں منہ سے ہوا بھر کے حلق کے نیچے اتاری جاتی ہے۔