لاہور: کیا ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاہین شاہ آفریدی کا کیریئر داؤ پر لگادیا گیا ہے، اس حوالے سے دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ساڑھے 3 ماہ کے بعد ٹی 20 ورلڈکپ میں کم بیک کرنے والے پیسر ایک بار پھر بے یقینی صورت حال سے دوچار ہوگئے ہیں۔
فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی دورہ سری لنکا میں ٹیسٹ میچ کے دوران فیلڈنگ کرتے ہوئے گھٹنے کی انجری کا شکار ہوئے تھے، انگلینڈ میں بحالی کا عمل مکمل کرکے ساڑھے 3ماہ کے طویل وقفہ کے بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کیلیے قومی ٹیم کو برسبین میں جوائن کیا، فٹنس100فیصد نہ ہونے کے باوجود میچز کھیلے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے فائنل میں انہوں نے پہلے ہی اوور میں انگلش اوپنر الیکس ہیلز کو بولڈ کیا، اننگز کے 13ویں اوور میں ہیری بروک کے اسٹروک پر لانگ آف سے کیچ لینے لپکے تو گھٹنہ زخمی کروا بیٹھے، اسی وقت خاصے تکلیف میں دکھائی دیے، فزیو اور ڈاکٹر ان کو میدان سے باہر لے کر گئے، ایک اوور بعد ان کی میدان میں واپسی ہوئی۔
کوئی احتیاط نہ برتتے ہوئے ان سے بولنگ کروانے کا خطرہ مول لیا گیا، لنگڑاتے ہوئے ایک گیند بھی کروائی مگر اس کے بعد بولنگ جاری نہ رکھ پائے، ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہین آفریدی پاکستان انگلینڈ سیریز کے ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل نہیں ہوں گے۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ مزید انجریز نہیں ہوتیں تب بھی پیسرز کو صحت یاب ہوتے ہوتے کم از کم 3 سے 4ماہ لگ سکتے ہیں، اگر سرجری کا فیصلہ کیا گیا تو 6سے 7 ماہ تک کرکٹ سے دور رہیں گے۔
بی سی بی کی پریس ریلیز کے مطابق شاہین شاہ آفریدی کو 2ہفتے کا بحالی پروگرام تجویز کردیا گیا، فاسٹ بولر کا اسکین قومی ٹیم کی میلبورن سے روانگی سے قبل کیا گیا۔
چیف میڈیکل آفیسر پی سی بی ڈاکٹر نجیب اللہ سومرو نے آسٹریلوی اسپیشلسٹ سے مشاورت کی ہے۔ وطن واپسی کے چند روز بعد شاہین شاہ آفریدی کی بحالی کا پروگرام نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر میں شروع ہوگا، ان کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی بحالی کا عمل مکمل ہونے پر میڈیکل اسٹاف کی ہدایت کی روشنی میں ہوگی۔
ادھر سابق فاسٹ بولر عاقب جاوید نے پیسر کی انجری کے معاملے پر انکوائری کا مطالبہ کردیا، ایک ٹی وی شو میں گفتگو کرتے ہوئے سابق ٹیسٹ کرکٹر نے کہا کہ شاہین شاہ آفریدی ورلڈکپ سے زیادہ اہم ہیں، اس کے معاملے پر انکوائری ہونا چاہیے کیونکہ ان جیسے بولرز روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
یاد رہے کہ پیسر کی انجری کے معاملے میں غفلت برتنے پر پہلے بھی پی سی بی کے میڈیکل پینل پر تنقید ہوتی رہی ہے۔