عرفان خان وہ باکمال اداکار تھے جنہوں نے بہت جلد اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور پورے جہاں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ سادہ مزاج، بناوٹ اور دیگر چیزوں سے پاک اس اداکار نے خالص اداکاری کی بنیاد پر اپنی پہچان بنائی۔ کامیابیوں کا سفر جاری تھا کہ ایک جان لیوا بیماری نے انہیں آلیا اور پھر وہ کچھ ہی عرصے میں اپنی زندگی سے محروم ہوگئے اور اپنے چاہنے والوں کو سوگوار کرگئے۔
عرفان خان اُن چند اداکاروں میں تھے جو بغیر کسی پرچی کے بالی وُڈ میں آئے اور انتھک محنت کے بعد اپنا الگ مقام بنایا، منفرد انداز اور باکمال اداکاری کے ذریعے سب کو متاثر کیا، ہالی وُڈ تک میں فلمیں کرلیں۔ جب یہ برطانیہ کے ہسپتال میں زیر علاج تھے تب اُنہوں نے ایک خط لکھا تھا، اُس خط میں انہوں نے لکھا تھا۔ خط کا متن ہے۔
میرے بہت سے خواب تھے، بہت سپنے تھے، میں اپنی زندگی کا سفر جی رہا تھا، میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک مجھے کسی نے پیچھے سے تھپکی دی اور کہا کہ تمھارا وقت آگیا ہے چلو۔ میں نے کہا نہیں میرا وقت ابھی نہیں آیا۔ زندگی کبھی کبھی ایسی ہی ہوتی ہے، مجھے بیماری نے احساس دلایا کہ ہم سمندر میں تیرتے کوڑ کی طرح ہیں۔ مجھے اُس وقت لگا کہ پوری کائنات ایک جیسی ہی ہے بس درد، درد اور درد کا احساس۔
خط میں عرفان خان کا خوف صاف ظاہر تھا، تین سال قبل یہ عظیم اداکار آج ہی کے دن اس درد سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پاگیا، زندگی ایسی ہی ہے۔ ہم سب نے بھی چلے جانا ہے، نام، عزت، شہرت اور دولت سب یہی رہ جائے گی اوپر آپ کے ساتھ جائیں گے تو صرف آپ کے کرم۔ اب آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ اچھے کرم کرنے ہیں یا بُرے۔ ہر ایک کا انجام اُس کے عمل کے مطابق ہی ہوگا، یہی قدرت کا قانون ہے، صدیوں سے ایسا ہی چلتا آیا ہے۔