سندھ کی تعلیم ، تعلیمی ادارے، تعلیمی بحران، خستہ حال عمارتیں، اور ڈیڑھ برس سے تعلیمی اداروں کو لگے تالے ہر دوسرے شخص کے لبوں پر موضوع بحث ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل سندھ کا خطہ درس گاہوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ ٹھٹھہ سے شکارپور تک علم پھیلانے کے مراکز ہوا کرتے تھے۔ انگریز راج میں بھی کئی درس گاہیں تعمیر ہوئیں۔ مگر قیام پاکستان کے بعد علم کے چراغ بجھتے گئے یا پھر ان چراغوں میں تیل اور باتی ڈالنے والوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ مجموعی طور پورے پاکستان اور خصوصی طور پر وادی مہران میں تعلیمی معیار کم سے کم تر ہوتا گیا۔ اسباب تلاش کریں گے تو بات سے بات نکلتی جائے گی اور تعلیمی تباہی کے ذمے داروں کا تعین مشکل سے مشکل ہوتا جائے گا۔ گزشتہ روز سندھ کے وزیر تعلیم سردار شاہ سے صوبے کے تعلیمی امور پر ہونے والی گپ شپ کے دوران یہ محسوس ہوا کہ وزیر صاحب خود بھی کئی امور پر ذہنی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ موجودہ حکومت کے دوران دوسری بار عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے سید سردار شاہ کو تعلیم کا قلم دان سونپا گیا۔ 2018 کے انتخابات کے بعد وزارتوں کا فیصلہ جب ہو رہا تھا تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سردار شاہ کا نام لیا۔ اس سے قبل پی پی پی کے پانچ سالہ حکومت کے دوران سردار شاہ نے ثقافت کے محکمے میں جان ڈال دی تھی۔ شاید اسی وجہ سے قرعہ فال ان کے نام نکلا اور صوبے کی سب سے بڑی وزارت ان کو سونپ دی گئی۔ سردار شاہ بتاتے ہیں، "پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مجھے انٹرویو کے لئے بلایا اور سوال کیا کہ ہم آپ کو تعلیم کی وزارت دیں تو آپ کس طرح اس وزارت کو بہتر کریں گے تو میں نے کہا کہ میں اپنی بیٹی کو سرکاری اسکول میں داخل کروں گا۔ جو پھر میں نے بعد میں ثابت کیا۔ میں اپنی بچی اور اس کی والدہ کو سرکاری اسکول میں داخل کروانے کے لئے باقاعدہ راضی کیا۔ بچی اب بڑی ہوگئی ہے اب اس کی اپنی مرضی ہے اب میں اپنی ذات کی خاطر ایڈونچر تو نہیں کرسکتا۔“
ایک سال کے بعد سردار شاہ کو وزارت تعلیم سے ہٹایا گیا۔ یہ بات کسی کو بھی سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ آخر سردار شاہ سے ایسے وقت میں تعلیم کا قلم دان واپس لیا گیا تھا جب انہوں نے ایک سال کے ہوم ورک کے بعد ایک حد تک وزارت پر دسترس حاصل کر لی تھی؟پھر 2019 سے 2021 تک یہ وزارت سعید غنی نے سنبھالی، لیکن چھہ سات ماہ بعد ہی ملک میں کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن اور تعلیمی اداروں کی بندش کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ برس تعلیم بحران کا دور تھا یا تعلیم کے زوال کا دورانیہ تھا، لیکن تعلیم کے ساتھ بہت برا ہوا۔ اب حال ہی میں ایسی بحرانی کیفیت میں سردار شاہ کو تعلیم کا قلم دان سونپ دیا گیا ہے۔ جس طرح سردار شاہ سے تعلیم کا قلم دان واپس لینے کی بات سمجھ نہیں آئی تھی اسی طرح اب یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ بحرانی کیفیت میں دوبارہ تعلیم کا قلم دان دینے سے سردار شاہ سے دوبارہ کون سا امتحان لیا جا رہا ہے؟
میں نے پوچھا کہ ماضی میں بھی آئی بی اے، سندھ یونیورسٹی اور این ٹی ایس کے ذریعے آپ نے استاذہ بھرتی کیے، جو ریگیولر نہ ہوئے پر مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ اس پر سردار شاہ نے جواب دیا، جب میں وزیر تعلیم تھا تو ہم نے این ٹی ایس پاس اساتذہ کو ریگیولر کیا تھا۔ میں آئی بی اے پاس اساتذہ کو بہتر سمجھتا ہوں، انہیں واپس لینا چاہتا ہوں، لیکن یہ معاملہ اب عدالت میں چلا گیا۔ عدالت نے کہا کہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سترہویں گریڈ کے اساتذہ لیے جائیں۔ عدالتی فیصلے پر تو میں کچھ نہیں کر سکتا لیکن اس کے باوجود میں ان سب کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کروں گا۔“
وزیر تعلیم اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ ہمارے سرکاری اسکولوں کی پروڈکٹ اچھی نہیں، تبھی لوگ پرائیویٹ اسکولوں میں پیسے بھر کر بچے پڑھا رہے ہیں اور ہم سے مفت میں بھی تعلیم لینا نہیں چاہتے، اس لئے ہمیں اپنی پرڈوڈکٹ کو بہتر کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اونرشپ بھی نہیں۔ سرکار پر تنقید بلاشک کریں، لیکن ہر شخص صرف اس اسکول کی اونرشپ لے جہاں سے اس نے تعلیم حاصل کی۔ ہر ایم پی اے ایک اسکول کی بھی ذمے داری لے تو ہم ایک سو ساٹھ بہترین اسکول تو دے سکتے ہیں۔ سردار شاہ کا خیال ہے کہ سندھ میں دو سے تین ہزار اسکولوں کی عمارتیں اوطاق یا گودام بنے ہوئے ہیں۔ ہم ان اسکولوں کو بند کرنے جا رہے ہیں۔ اب اسکول کی عمارت صرف اس جگہ بنے گی جہاں بچے ہوں گے۔ کسی کو خوش کرنے کے لئے بلڈنگ نہیں بنے گی۔سندھ کی تعلیم کا نظام کب بہتر ہوگا، کیسے بہتر ہوگا اور اس کو کون بہتر کرے گا؟ یہ سوال پورے معاشرے کا سوال ہے۔ ہر دور کی حکومت نے تعلیم کو علمی انداز سے نہیں بلکہ سیاسی انداز سے چلایا۔ گزشتہ چار دہائیوں سے سندھ میں تعلیم کے شعبے میں ہر قسم کی مداخلت جاری ہے۔ سیاسی لوگوں کے بھرتی کردہ ٹیچرز اس مرغی کے برابر ہیں جو سیاسی انڈے دیتی ہے۔ پھر وہ ٹیچر اسکول جاتا ہے یا نہیں جاتا لیکن الیکشن ڈیوٹی کے دوران وفاداری ضرور دکھا دیتا ہے۔ گھوسٹ ٹیچرز کو روکنے کے لئے بائیو میٹرک کا سرشتہ قائم ہوا، لیکن ابھی تک بھی سو فیصد کامیاب نہیں ہے۔ پہلے صرف ایک دو ٹیچرز ہر اسکول سے گھوسٹ ہوا کرتے تھے، اب پورے پورے اسکول گھوسٹ ہوجاتے ہیں۔ اس پر وزیر تعلیم سردار شاہ کہتے ہیں کہ “ہمارے ٹیچرز کی بڑی تعداد عادی غیر حاضر ضرور ہیں، لیکن گھوسٹ ٹیچرز اب ہوں گے تو بہت کم ہوں گے۔ میں نے ان ٹیچرز کے لئے کہا تھا جو کہ جنرل ضیا کے دور میں صرف پرچی پر بھرتی ہوئے تھے، لیکن اس دور کے تمام ٹیچرز کو انگوٹھا چھاپ نہیں کہا تھا۔ ویسے بھی سسٹم سے ہر سال پانچ ہزار اساتذہ ریٹائر ہوکر نکل رہے ہیں، اس لئے ہمیں معیاری اساتذہ کی شدید ضرورت ہے۔ سسٹم میں پچاس ہزار نئے اساتذہ کی ضرورت ہے۔ اور ہمارے پاس خواتین ٹیچرز کی تعداد بہت کم ہے۔ سائنس پڑھانے اور کمپیوٹر پڑھانے والے اساتذہ کم ہیں۔
یر تعلیم سے گفتگو کے دوران جب میں نے کہا کہ جس طرح تعلیم کا محکمہ سب سے بڑا ہے اسی طرح کرپشن کی شکایات بھی بہت زیادہ ہیں ایک اسکول سے لے کر سیکریٹریٹ تک کرپشن ہے۔ ایک ادیب سردار شاہ جو کہ وزیر تعلیم ہے وہ اس کرپشن کو کیا روک سکتا ہے؟ اس پر وزیر تعلیم نے کہا کہ کرپشن میرے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔ میں سوشل میڈیا پر بھی ملنے والی شکایات پر کاروائی کروں گا۔ براہ راست کوئی بھی مل سکتا ہے، درخواست بھی بھیج سکتا ہے اور میں سیکرٹریٹ میں شکایتی سیل بھی قائم کر رہا ہوں۔ ناجائز کام ہونے نہیں دوں گا، جائز کام کے لئے رشوت لینے والے کے لئے میرے پاس کوئی رعایت نہیں ہوگی۔وزیر تعلیم سے آدھے پون گھنٹے کی گفتگو کے دوارن ان کے ارادوں سے لگا کہ وہ بہت کچھ کرنا تو چاہتے ہیں لیکن کتنا کچھ کر سکتے ہیں وہ اہم ہوگا۔ اور موجودہ نظام حکومت میں وزیر تعلیم کس حد تک اپنے فیصلوں میں خود مختار ہوں گے یہی وہ سوال ہے جس کا جواب سردار شاہ کی کارکردگی سے مل سکتا ہے۔